میں پہلی دفعہ لندن گیا تو میری عمر 35 سال تھی۔ برٹش کونسل کے سکالرشپ پر گیا تھا، جس کو کوالیفائی کرنے کے لیے لمبا پراسس تھا۔ خیر اللہ بھلا کرے ناصر کاظمی صاحب کا جو اس وقت برٹش کونسل میں بڑے افسر تھے۔ سینکڑوں امیدواروں میں سے تحریری ٹیسٹ پاس کیا تو اگلا مرحلہ انٹرویو کا تھا جو گوروں نے کرنا تھا۔
کاظمی صاحب سے میری ملاقات وہیں انٹرویو بورڈ میں ہوئی۔ وہ میری دی نیوز میں فائل کی گئی اسٹوریز اور سکینڈل کے مداح نکلے۔
انہوں نےگوروں پر مشتمل انٹرویو پینل کو میرا تعارف ہی کچھ ایسا کرا دیا کہ انگریز خاتون اور مرد بولے کہا ٹھیک ہے مسٹر کاظمی جو آپ مناسب سمجھیں۔ کاظمی صاحب نے یہی مناسب سمجھا کہ مجھے انٹرویو میں پاس کر دیں۔
میری قابلیت سے زیادہ ہاتھ ناصر کاظمی صاحب کا تھا۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔
خیر لندن جانے سے پہلے برٹش کونسل نے سب کامیاب لوگوں کو دفتر میں بلا کر بریفنگ دی جسے "کلچرل شاک" کا نام دیا گیا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ پس ماندہ لوگ لندن کا ماحول دیکھ کر باولے ہی نہ ہو جائیں۔ لہذا ان کی کچھ کونسلنگ کرکے بھیجیں کہ لندن میں لڑکیاں کیا ڈریس پہنتی ہیں۔ لوگ کیسے ہیں۔ لائف کیسی ہے۔ وہاں رہنا کیسا ہے۔ کس کی ذاتی لائف میں مداخلت نہیں کرنی (میں نے سوچا پھر کیا مزہ ہوگا وہاں اگر یہ کام بھی نہیں ہوتا)۔
ہاں کسی کو گھورنا بھی نہیں ہے۔ یہ جرم ہے۔ ایک دفعہ تو سوچا انکار ہی کر دیں۔ یہ تو ہاتھ پائوں باندھ کر پتھر ساتھ دریا میں پھینکنے کا بندوبست ہورہا تھا کہ تیر کر دکھائو۔
خیر لندن پہنچ گئے۔ تین ماہ بعد برٹش کونسل کی ایک خاتون کی ای میل آئی جو ہماری liaison officer تھیں کہ اب تک آپ نے اپنے کالج سے کیا سیکھا ہے؟
میرا کالج گولڈ اسمتھ لندن تھا۔
میں نے جوبی ای میل بھیجی کہ آپ نے باقی کلچرل شاک تو بتائے تھے لیکن دو تین نہیں بتائے تھے جو اب یہاں آکر سیکھے ہیں۔
پہلی بات۔ یہاں میں نے مسکرانا سیکھا ہے۔ ہر کوئی آپ کو دیکھ کر مسکراہٹ دیتا ہے۔ پہلے میں حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھتا تھا کہ یہ کس کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے/رہی ہے۔
وہ پھر میری حالت دیکھ کر مسکراتا/مسکراتی۔ پھر خوبصورت گوری لڑکیوں نے مسکراہٹ دینی شروع کی تو میں شرما جاتا کہ یہ کیا چکر چل رہا ہے۔ پھر ادھر ادھر دیکھنا۔ پھر پتہ چلا ہر اجنبی چہرے کو دیکھ کر مسکراہنا یہاں کا کلچر ہے۔
میں نے سوچا ہمارے ہاں تو فارمولہ ایک ہی ہے ہنسی تے پھنسی۔
لیکن یہ ہنستی بھی ہے پھنستی بھی نہیں۔ پھر پتہ چلا ہر مسکراہٹ دینے والی گوری لڑکی کا یہ کلچر ہے۔
یوں میں نے جوابا مسکراہٹ دینا سیکھا اور نارمل ہو کر باولا ہوئے بغیر قریب سے گزر جانا۔
ایک دن کالج کے کارویڈو سے گزر رہا تھا۔ اگے دروازہ تھا۔ دوسری سائیڈ سے لڑکی آرہی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور میرا انتظار کیا اور ہولڈ کیے رکھا کہ میں گزر جائوں۔
میں جھجک کر رک گیا۔ اس نے اشارہ کیا۔ میں گزرا۔ اس کے قریب سے گزرا تو وہ بولی تھینک یو۔ میں حیران یہ اس نے تھینک یو کس بات کا کہا؟
پھر مجھے پتہ چلا دوسرے کے لیے دروازہ ہولڈ کرنا ہے اور اگر کوئی آپ کے لیے کرے تو اسے تھینک یو کہنا ہوتا ہے۔
پھر میں نے پہلی دفعہ سوری اور تھینک یو کالج میں سیکھا۔ اپنے کلاس فیلوز اور کالج فیلوز اور کنٹین بس ٹرین ہر جگہ یہی دو لفظ روزانہ سینکڑوں دفعہ سنے۔
اب تین ماہ بعد میں کسی اجنبی کے لیے دروازہ ہولڈ کرتا ہوں، خوبصورت چہروں کو دیکھ کر مسکراتا ہوں۔ میں تھینک یو اور سوری کرتا ہوں۔
جب یہ ای میل اس خاتون افسر کو ملی تو ان کا جواب آیا مسٹر رئوف ہم نے آپ کے کالج کی اٹھارہ ہزار پونڈز فیس صرف دروازہ ہولڈ کرنے، مسکراہٹ دینے، تھینک یو سوری سیکھنے کے لیے دی تھی یا وہاں پڑھنے کے لیے؟ یہ مینرز تو آپ کو بچپن میں سیکھ لینے چاہئے تھے۔
میں نے جواب لکھ بھیجا۔ آپ درست کہتی ہیں میڈیم۔ آئی ایم سوری۔