Thursday, 21 November 2024
  1. Home/
  2. Rauf Klasra/
  3. Qissa Char Naslon Ka

Qissa Char Naslon Ka

سوشل میڈیا کی دُنیا میں کئی کمالات ہوئے ہیں۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک نے دُنیا بھر میں بکھرے اربوں لوگوں کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو دُنیا کے سامنے آشکار کیا ہے۔ جو کل گمنام تھے وہ آج جانے جاتے ہیں، پڑھے جاتے ہیں، مشہور ہوچکے ہیں اور ان کی تحریریں دِلوں پر اثر رکھتی ہیں۔

ابھی یہی دیکھ لیں فیس بک نہ ہوتا تو قیصرہ شفقت کوکون جانتا ہوتا؟ ایک ایسی خوبصورت لکھاری جس نے او پی ایف سکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ وقت میں فیس بک پر لکھنا شروع کیا۔ بچّوں نے حوصلہ افزائی کی، چلیں اماں مصروف رہیں گی۔ یہ پتہ نہیں تھا کہ ان غیرمعمولی تحریروں میں وہی بچّے ہی روز نشانے پر ہوں گے اور روز ان پر ہی جگت لگے گی۔

قیصرہ شفقت کی روٹین سے ہٹ کر ادبی رنگ سے بھرپور تحریروں نے میرے دوست لکھاری عامر خاکوانی اور میرے جیسے بندوں کو انھیں سنجیدگی سے لینے پر مجبور کر دیا۔ مان لیا کروڑں لوگوں کی طرح ان کا بھی ایک فیس بک اکاؤنٹ ہے لیکن پھر کتنے لوگ ہوں گے جن کے فیس بک اکاؤنٹ پر آپ روزانہ وزٹ کرتے ہوں گے، دیکھیں آج کیا نیا لکھا ہے؟

مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے کب قیصرہ شفقت صاحبہ کو پڑھنا شروع کیا اور کب ان کے فیس بک کے اسٹیٹس کا عادی ہوا۔ ایک عجیب سی کشش تھی ان کی تحریروں اور ان کرداروں میں جن پر وہ لکھ رہی تھیں۔ ایسا اور کوئی نہیں لکھ رہا تھا۔

یہ کیسے کردار ہیں جن پر وہ روز لکھتی ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو ہمیں اب اپنے اپنے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ لگتا تو ان کا اپنا خاندان ہے، ان کی اپنی نسلوں کا قصہ ہے جو وہ ہمیں سنا رہی ہیں۔

مجھے حیرت ہونے لگی، کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے اور وہ بھی خصوصاً خاتون جواپنی چار نسلوں کی کہانی ہمیں سنا رہی ہوں اور وہ بھی فیس بک پر اور وہ بھی بغیر اگر مگر کے اور ہم سب ان ذاتی نوعیت کی تحریروں سے بور ہونے کی بجائے انجوائے کرنا شروع کر دیں؟

مجھے یوں لگا یہ صرف ان کے خاندان یا نسلوں کا قصہ نہیں، بلکہ ہم سب کا قصہ ہے۔ ہم سب کی داستان ہے۔ ہم سب کا مشترکہ ماضی، حال اور مستقبل۔

ایک دن انھیں پڑھتے ہوئے میں نے سوچا، کیا میں مرد ہوکر اپنے خاندان کا قصہ اس طرح لکھ سکتا ہوں، جس طرح وہ لکھ رہی ہیں؟

مجھے فوراً اپنے اندر سے جواب آیا، نہیں تم سے نہیں ہو پائے گا۔ تم نہیں لکھ سکو گے۔ تم اسی میں پھنس جائو گے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

یہ کریڈٹ قیصرہ صاحبہ کو جاتا ہے کہ انھوں نے اس معاشرتی خوف کو توڑا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اپنے بزرگوں، گھر، بہوئوں اور بچّوں تک کی سب باتیں وہ فیس بک پر لکھ دیتی ہیں۔

ان کے بچّے لاکھ احتجاج کرتے رہیں کہ اماں۔۔ خدا کے لیے یہ نہ لکھ دینا، وہ نہ لکھ دینا۔ مجال ہے اماں ان کی کسی التجا کو اس قابل سمجھتی ہوں۔ ان کے ہاتھ میں موجود قلم کی تلوار نے اپنے سب بچّوں کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ لیکن پھر جس خوبصورت انداز میں انھوں نے اپنے گھر کی عام اور روز مرّہ باتوں کو بھی دلچسپ بنا کر پیش کیا وہ اپنی جگہ ایک کمال ہے۔

اس کتاب کی اہم بات یہ ہے کہ قیصرہ شفقت سب سے زیادہ خود پر ہنستی ہیں۔ اپنا مذاق خود اُڑاتی ہیں۔ اپنے چاروں بچّوں کا مذاق اڑاتی ہیں۔ اپنے خاندان کا بھی آتے جاتے ریکارڈ لگا لیتی ہیں۔۔ اور تو اور اپنے پوتے پوتیوں پر بھی میٹھے اور تُرش جملے کسنے سے باز نہیں آتیں۔ انھوں نے اپنے بچّوں اور پیاروں کو کوئی غیرمعمولی ہستیاں بنا کر پیش نہیں کیا۔ عام سے لوگ جن پر وہ خود جگت مارتی ہیں، انھیں تنگ کرتی ہیں اور سب سے زیادہ اپنی ذات پر وہ جملے کستی ہیں۔ آپ انھیں پڑھتے پڑھتے جہاں ہنس پڑتے ہیں وہیں آپ حیران ہوتے ہیں بھلا ایسے بھی کوئی اپنے ساتھ کرتا ہے۔ اپنا مذاق کوئی ایسے بھی اُڑاتا ہے۔۔ یوں سمجھ لیں یہ جملہ ان کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ بندہ جائے لیکن جملہ نہ جائے۔

جس طرح انھوں نے گھر کے عام ملازمین کی کہانیاں اور ان کے قصے لکھے ہیں وہ اپنی جگہ ایک اور کمال ہے۔ ان کی کئی تحریروں کے ہیروز ان کے اپنے بچّے نہیں بلکہ گھریلو ملازمین ہیں۔ وہ بچیاں ہیں جو گائوں سے آئی ہیں اور ان کے ہاں کام کرتی ہیں جو اپنے اپنے گھروں کے "بڑے" ہیں، جو "کمائو پتر" ہیں۔ جتنی محبّت اور کیئر ان بچیوں کے لیے دکھائی گئی ہے وہ بہت کم گھروں میں ہوگی۔ ایک ایسے دَور میں جہاں مالکان گھریلو ملازم بچّوں اور بچیوں کو تشدد کرکے مارتے ہوں، دُنیا بھر کی تکلیفوں سے گزارتے ہوں، وہیں آپ کو اس گھر میں ایسے کردار ملتے ہیں جو ان معصوم بچّوں کو اپنے بچّے سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں۔

مجھے فیس بک پر لکھی گئی ان گھریلو کہانیوں، قصوں، کہاوتوں اور باتوں میں یوں لگا جیسے صدیوں کے راز دفن ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے ایک ایک کرکے آشکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے ان بزرگوں کی کہانیاں ہیں، ان کے قصے ہیں جو کب کے دفن ہوچکے۔ آخری نسل ان کا قصہ یا نوحہ پڑھ رہی ہے۔ اب جو نئی نسل جوان ہورہی ہے اس کا ان قصے کہانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ قیصرہ شفقت وہ آخری نسل تھی جو ان رازوں کی امین تھی۔ وہ پُرانی یادوں میں گُم، گزرے وقت کے طوفان کی دُھول میں ایک مسافر کی طرح بھٹک رہی ہیں۔

آپ کو کیا لگتا ہے یہ سب قصے کہانیاں صرف خاکوانی خاندان کے ہیں؟ وہی خاکوانی پٹھان جو آج کے پاکستان کے مغرب سے دُور دراز پہاڑی علاقوں سے ہندوستان آئے، یہاں راج کیا اور پھر واپسی کا راستہ بھول کر اسی دھرتی میں دفن ہوگئے۔ اپنی زبان بھول گئے۔ ان پٹھانوں نے سرائیکی زبان اور اس دھرتی کے لوگوں کو گلے لگا لیا۔ اس سرائیکی دھرتی اور زبان کو اپنا لیا۔ پہاڑوں سے اترے ان پٹھانوں کے اندر کی سختی کو سرائیکی علاقوں کی مٹھاس نے اپنے اندر جذب کر لیا۔ آج ان پٹھانوں کی نسلیں خود کو سرائیکی کہتی ہیں، سرائیکی بولتی ہیں اور انھی روایات اور کلچرل میں گھل مل گئی ہیں۔

ایک دن میں نے قیصرہ شفقت صاحبہ کو کہا، آپ جو لکھ رہی ہیں، اس کی فیس بک پر زندگی شاید ایک دن کی ہو۔ آپ یہ سب کچھ کتابی شکل میں لے آئیں۔

وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہوگئیں کہ میں تو ویسے ہی لکھ دیتی ہوں۔ اس میں ایسا کیا ہے کہ لوگ پڑھیں گے؟ میرے خاندان کے بزرگوں کے کچھ قصے ہیں، کچھ ہماری بھولی بسری روایات ہیں۔ کچھ گھریلو ٹوٹکے ہیں، کچھ جھگڑے ہیں، کچھ محبتیں ہیں، کچھ شکایتیں ہیں۔ کچھ پُرانی اور نئی نسلوں کی کہانیاں ہیں۔ اپنی اکلوتی بیٹی مہر النساء سے روز کی نوک جھونک ہے۔ اپنے تین بیٹوں رازی خان، عمر خان اور ذیشان خان اور اپنی بہوئوں اور پوتے پوتیوں کی اٹھکیلیاں ہیں۔ ایک عام بندے کو اِن گھریلو کہانیوں میں کیا دلچسپی ہوگی کہ وہ ان کو پڑھے؟

میں نے انھیں قائل کرنے کے لیے کہا، آپ نے جو کچھ ہمارے سرائیکی خاکوانی پٹھانوں کی صدیوں پُرانی روایات اور خاندانوں پر لکھا ہے یہ دراصل اپنے انداز میں ایک مختلف تاریخ رقم کی گئی ہے۔ سرائیکی خاندانوں اور سرائیکی علاقوں کی روایات کو اس طرح پہلے کبھی قلم بند نہیں کیا گیا۔ آپ نے دراصل ہلکے پھلکے انداز میں سرائیکی علاقوں کی تاریخ لکھ دی ہے۔ ہماری روایات اور رواجوں کو لفظوں کی شکل دے کر نئی زندگی دے دی ہے۔ ایسے احساسات مجھے اس سے پہلے قرۃ العین حیدر کے "کارِجہاں دراز ہے" پڑھ کر محسوس ہوئے تھے۔ تاریخ میں بہت سارے لوگ اور ادیب اپنے خاندان کی تاریخ لکھتے آئے ہیں، خاندانوں کا ذکر کرتے آئے ہیں جیسے نہرو کی بہن لکشمی پنڈت نے اپنی آٹوبائیوگرافی میں خاندان کے بارے ایسا لکھا ہے کہ اس میں آپ کھو جاتے ہیں۔ ہندوستان کے کشمیری پنڈت موتی لعل گھرانے کی روایات اور ہندوستان کے اس دَور کا رکھ رکھائو پڑھ کر آپ ایک سحر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنے بھائی جواہر لعل نہرو کی شادی کا جو نقشہ اس کی بہن نے کھینچا ہے وہ پڑھ کر آپ کئی دن تک ایک عجیب رومانس میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اس دَور کی روایات اور وہ ماحول۔

یہ انسانی نفسیات ہے کہ ہم اپنے جیسے لوگوں کی تاریخ یا سرگزشت نہیں پڑھنا چاہتے۔ ہمیں اپنے جیسے لوگ اچھے نہیں لگتے یا متاثّر نہیں کرتے۔ ہمیں بڑے لوگوں کی کہانیاں سننا اور ان کی زندگی بارے جاننا اچھا لگتا ہے۔ ہم ان لوگوں کی زندگیاں جاننا چاہتے ہیں جو ہم خود بننا چاہتے ہیں۔

قیصرہ شفقت نے ایک نیا تجربہ کیا ہے جو اس سے پہلے کم از کم مجھے اُردو ادب میں نہیں ملتا کہ کسی نے اپنے خاندان کی عام کہانیوں کو ایسا رنگ دے دیا ہے کہ چار نسلیں ایک ساتھ جڑ گئی ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ پوچھیں ان کہانیوں میں ہمارے لیے کیا ہے؟ ہمیں کسی دوسرے خاندان کی روایات، ان کے بزرگوں یا ان کے قصے کہانیوں میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟

یقیناً یہ سب کہانیاں مجھے اور آپ کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی گئیں۔ یہ ایک ایسے انسان کی یادداشتیں ہیں جس نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں اس کی بہنوں کی اہمیت اس سے زیادہ تھی۔ ایک ایسی بیٹی جو عمر بھر باپ کی محبّت تلاش کرتی رہی، باپ کو خوش اور متاثر کرنے کے طریقے ڈھونڈتی رہی۔ بعض جگہوں پر میں خود افسردہ ہوا۔ ایک باپ اتنا سخت کیسے ہوسکتا ہے۔ میری بیوی اکثر مجھے کہتی تھی تم اپنے بچّوں پر سختی نہیں کرتے۔ میں جواب دیتا تھا کہ ہمارے سرائیکی ماں باپ اپنے بچّوں پر سختی نہیں کرتے تھے۔ میں نے جب سختی دیکھی ہی نہیں ہے تو آگے بچّوں پر کیسے کروں؟

اس کتاب کا ہر باب ایک دوسرے سے جُدا بھی ہے اور جُڑا بھی ہوا ہے۔ کبھی لگتا ہے ایک طویل ناول ہے جسے آپ پڑھ رہے ہیں، اس کے کردار بار بار مختلف رنگ و رُوپ بدل کر آپ کے سامنے آرہے ہیں۔ آپ مختلف زمانوں میں سفر کررہے ہیں۔ ان کرداروں کا ذکر آپ اتنی بار پڑھتے ہیں کہ آپ کو سب زبانی یاد ہو جاتے ہیں لیکن آپ ان سے بور نہیں ہوتے۔ ہردفعہ نئی کہانی آپ کی منتظر ہے۔ نیا قصہ، نئی باتیں اور نیا جھگڑا۔ آپ خود کو اس خاندان کا حصہ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے آپ ان سب کو جانتے ہیں۔ آپ بھی ان کرداروں کے ساتھ سوتے، جاگتے سانسیں لیتے ہیں۔ انھی اجنبی کرداروں کے ساتھ آپ ہنس، کھیل اور رو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک فلم کی طرح آپ کی نظروں کے سامنے چل رہا ہے اور فلم میں مگن ایک بے بس تماشائی کی طرح آپ سنیما ہال میں اپنی سیٹ سے اُٹھ بھی نہیں سکتے کہ کہیں کوئی اہم منظر رہ نہ جائے۔

ہر قسط میں آپ کو چار نسلیں بیک وقت سانسیں لیتی محسوس ہوتی ہیں۔ جہاں ماں قیصرہ شفقت کی اپنی بیٹی مہر النساء سے ہر روز مہابھارت کی نئی داستان رقم ہے، وہیں ایک ماں کی اپنے بچّوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ آپ کو وہ لطف دیتی ہے کہ آپ کئی دن تک اس کے ذائقے میں گرفتار رہتے ہیں۔ آپ ہنستے ہنستے کوئی کہانی شروع کرتے ہیں تو کچھ دیر بعد آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آرہے ہیں، کہیں آپ افسردہ، تو کہیں مسکرا رہے ہیں۔

یہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک ایسی بچّی کا سفر ہے جو آج دادی بن کر اپنے گزرے زمانوں کو یاد کررہی ہے۔ وہ تمام پیارے لوگ جن کے دم سے کبھی زندگی روشن تھی۔ وہ پیارے لوگ جو ایک ایک کرکے رُخصت ہوئے اور ان کی جگہ نئی نسل کے کردار لیتے گئے اور وہ بھی ان کرداروں کے ساتھ ڈھلتی چلی گئیں لیکن ان کے اندر موجود ناسٹیلجیا نے انھیں سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ جس طرح اپنے بچّوں کے والد بدر خان کی موت پر نوحہ لکھا گیا ہے وہ آپ کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

جس طرح اپنی بیٹی مہر النساء کے ساتھ فرینک گفتگو کو ان تحریروں کا حصہ بنایا گیا ہے وہ اپنی جگہ آپ کو مسکرانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ماں بیٹی میں اس طرح کا تعلق بہت کم دیکھا ہوگا جو یہاں آپ کو پڑھنے کو ملے گا۔ جو نوک جھونک ایک ماں کی اپنے بیٹوں رازی خان، عمر خان، ذیشان اور بیٹی مہرالنساء کے ساتھ چل رہی ہے وہ بھی ایک کلاسک ٹچ ہے۔ ان کی اپنے کرداروں سے محبّت اپنی جگہ لیکن آپ کو ان کی شخصیت کا رعب بھی ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ایک خوش قسمت اور سمجھدار ماں جس کا بیٹا عمر روز ماں کے پائوں چھوتا ہے اور دیگر بچّے طعنے دیتے ہیں کہ اماں عمر یہ سب ڈرامہ کر رہا ہے اور ماں فخر سے جواب دیتی ہے کہ تمہارے نزدیک ڈرامہ ہی سہی لیکن اس کا روز میرے پائوں چھونا اچھا لگتا ہے۔

اتنی خوبصورت اُردو آپ نے بہت کم پڑھی ہوگی۔ اگر میں یہ کہوں یہ کتاب کبھی نہ کبھی اُردو میں ایک کلاسک کا درجہ اختیار کرے گی تو ہوسکتا ہے بہت سارے لوگ میرے اس دعوے پر ہنس دیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اس کتاب نے مجھے متاثر کیا ہے۔ اس غیرمعمولی کتاب کے اندر پورا ایک جہاں آباد ہے، ایک نئی دُنیا آباد ہے۔ اس کتاب میں پوری چار نسلیں سانسیں لے رہی ہیں۔ یہاں بہت کچھ پُرانا دفن ہے۔ اب آپ نے اس کتاب میں دفن ماضی، حال اور مستقبل کی نسلوں کو دھیرے دھیرے کُھرچنا ہے۔ اس کا ذائقہ دھیرے دھیرے محسوس ہوگا اور پھر یقین رکھیں پھر کبھی منہ سے نہیں جائے گا۔ یہ بار بار پڑھنے والی کہانیاں ہیں۔ ایک بار پڑھنے سے دل نہیں بھرتا۔ یقین کریں اس کتاب کے سب کرداروں کی محبّت میں آپ ایسے گرفتار ہوں گے کہ پھر نکل نہیں پائیں گے۔ قیصرہ شفقت نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک غیرمعمولی دستاویزات تیار کرکے رکھ دی ہے۔

یہ ایک دادی کا اپنی نسلوں کے لیے ایک غیرمعمولی تحفہ ہے۔ کیا پتہ آنے والے زمانوں میں ان کے کسی پوتے، پوتی یا پڑپوتی کو کسی دن گھر کے کونے میں رکھے بوسیدہ صندوق میں سے یہ کتاب ملے۔ وہ اس صندوق کی دھول میں دفن اپنے دُور دراز پہاڑوں سے اترے پٹھانوں کی یہ غیرمعمولی کہانیاں پڑھے، ان غیرمعمولی کرداروں پر کوئی نیا ناول لکھے، کوئی فلم بنائے یا پھر اپنے بچّوں کو یہ کہانیاں اونچی آواز میں بیڈ ٹائم پر سنائے کہ ان کے آبائو اجداد کون تھے، کن پہاڑوں سے آئے، کتنا طویل سفر کرکے ہندوستان پہنچے اور پھر اس دھرتی کے سینے میں سما گئے۔ ہوسکتا ہے وہ اس کتاب میں قید پُرانے زمانوں کے تمام خوبصورت کرداروں پر ایک ایسی لازوال کہانی لکھے جو کبھی نہ بھلائی جا سکے۔ ایسی کہانی جو آنے والوں زمانوں میں پڑھی جائے جو کبھی آپ کو رُلائے تو کبھی ہنسائے۔

اس نامعلوم دن کا انتظار سب کو رہے گا، چاہے ہم رہیں یا نہ رہیں۔ آج سے برسوں بعد کسی ایسے دن کا انتظار جب کسی بوسیدہ صندوق سے دُھول میں لپٹی یہ بظاہر عام سی کتاب اچانک برآمد ہو۔ انسانی تاریخ کے کسی مستقبل کا کوئی ایک دن، کوئی ایسا لمحہ جس کی بے پناہ خواہش میں"قصہ چار نسلوں کا" لکھا گیا ہے۔ اب تک آپ نے "قصہ چہار درویش" پڑھا تھا اب "قصہ چار نسلوں کا" پڑھیں۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran