سفید برفیلے سرد طویل جنگلوں کے سلسلوں میں واقع سابئریا کا نام اکثر روسی ادیبوں کی کہانیوں اور ناولز میں اتنا پڑھ رکھا ہے کہ سب کچھ اپنا اپنا سا لگتا ہے بلکہ اس کا سوچ کر ہی سردی سے کپکی شروع ہو جاتی ہے۔
جیسے ہندوستان میں کسی کو موت کی سزا دینی ہوتی تھی تو اسے کالا پانی بھیجنے کی ٹرم عام تھی ویسے ہی روس میں سزا کے طور پر حکومت مخالفوں یا باغیوں اور خطرناک مجرموں کو برفیلے سرد علاقے سائبریا بھیجا جاتا اور شاید ہی وہاں سے کوئی زندہ لوٹتا تھا۔ اگرچہ عظیم ادیب دوستووسکی ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھا جو سائیبریا سے زندہ لوٹا تھا بلکہ وہ تو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا تھا کہ گولی چلنے سے قبل ہی زندگی اسے اڑا کر لے گئی تھی۔
خیر سائبریا کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ جدید یورپ سے بہت پیچھے تھا۔ وہاں کا کسان توہم پرست بہت تھا۔ بہت زیادہ مذہبی، رقص اور ووڈکا کا شوقین، تنگ نظر اور پس ماندہ تھا۔ لیکن اس شخصیت میں ایک بات تھی کہ وہ خود کو دوسروں کے برابر سمجھتا تھا۔
چالاکی بھی بہت تھی۔ لیکن پس ماندگی کی حالت یہ تھی کہ جب سائبریا میں پہلی دفعہ ایک ڈینش ماہر زراعت وہاں اپنی گاڑی لے گیا تو اسے دیکھ کر ایک عورت کو اتنا جھٹکا لگا کہ وہ وہیں گر کر مر گئی۔ اس خاتون کو لگا یہ حضرت عیسی کے دشمنوں کا چھکڑا ہے۔
اس طرح جب 1914 میں سائبریا کے فوجیوں کی ایک یونٹ کو جنگ میں بھیجا گیا اور انہوں نے پہلی دفعہ جنگی جہاز اڑتے دیکھے تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے کہ خدا دشمنوں ساتھ مل کر ان کے خلاف جنگ لڑنے آگیا تھا۔
اور پھر سائبریا کے ان توہم پرست کسانوں کے درمیان راسپوٹین نے جنم لیا۔ ایک دن کسانوں والے بوٹ پہن کر وہ زار روس اور ملکہ کے سامنے پیش ہوا اور سیدھا انہیں اس بے تکلف انداز میں مخاطب کیا جو کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ سننے والے دنگ رہ گئے۔
پاپا۔۔ ماما۔
اور پھر اس پس ماندہ سرد برفیلے علاقے سے اٹھے اس کسان نے پوری سلطنت روس اپنے قبضے میں لے لی۔ ان دنوں روس پر حکومت زار نہیں، راسپوٹین کرتا تھا۔