دوستوں کو اکثر ایک دوسرے کی پسند ناپسند کا علم ہوتا ہے اور یہی دوستی ہوتی ہے۔ اگر مجھے کہنا پڑے اس زندگی میں وہ میرا کون سا دوست ہے جسے کتابوں کی میری پسند ناپسند کا پوری طرح علم ہے تو وہ لندن کے میرے پیارے صفدر عباس زیدی ہیں۔
ان کو ایک دفعہ کہا تھا مجھے لارڈ کلائیو پر بک چاہئے۔ برسوں پہلے حسن رضا گوندل (سب رنگ فیم) میرے لیے برطانیہ سے رابرٹ کلائیو پر لکھی گئی ایک شاندار کتاب بطور تحفہ لائے تھے۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تھا کہ دوران سفر وہ کتاب کہیں گم ہوگئی۔ بڑی شاندار کتاب تھی۔ میں نے اسے گوگل، امیزان پر بہت ڈھونڈا نہ ملی۔
خیر ہمارے صفدر بھائی لندن بیٹھ کر اس وقت کے ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت کے اہم کرداروں کی کتابوں کو ڈھونڈ نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان سے بہتر پرانی بکس اور کوئی تلاش نہیں کرسکتا۔ جس بندے نے ہمارے ملتان کے ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی فرمائش پر انگریز دور کے گورنر پنجاب سر ایمرسن کی فیملی کو سو سال بعد برطانیہ میں ڈھونڈ نکالا ہو اس کے لیے پرانی اہم بکس تلاش کرنا کون سا مشکل کام تھا۔ صفدر بھائی نے سر ایمرسن کی پوتی اور پڑپوتی سے سرائیکی زبان میں ملتان کی ایمرسن یونیورسٹی کی ایک سو سالہ تقریبات کے لیے پیغام ریکارڈ تک کرائے۔ پہلے ماں بیٹی کو سرائیکی زبان کے وہ فقرے زبانی یاد کرائے اور پھر ان کی ویڈیو بنائی۔
ان گوری ماں بیٹی سے آپ وہ سرائیکی زبان کا کلپ سنیں تو آپ کو اندازہ ہوگا اس زبان کی مٹھاس اور محبت کیا چیز ہے۔ خیر اب صفدر بھائی نے لندن سے اولڈ بکس سے ڈھونڈ کر میرے لیے میری پسند کی بکس بھیجی ہیں۔
شاید صفدر بھائی کی طرف سے رابرٹ کلائیو پر دو کتابیں بھیجنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک مصنف نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ اس نے درجن بھر دیگر کتابوں کے نام بھی اپنی کتاب کے آخر پر لکھ دیے ہیں جو کلائیو پر لکھی گئی تھیں۔ اس کا کہنا ہے وہ اتنا مشکل کردار تھا کہ صرف ایک کتاب پڑھ کر آپ اسے پورا نہیں سمجھ سکتے۔
رابرٹ کلائیو کا مصنف رابرٹ ہاروی لکھتا ہے اسے یہ کتاب ریسرچ کرنے اور لکھنے میں پورے بیس سال لگے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ وہاں سکالرز یا رائٹر یا مورخین بیس بیس سال لگا کر کتاب لکھتے ہیں۔
آپ نے بہت کردار پڑھے ہوں گے لیکن کلائیو جیسا کردار کم پڑھا ہوگا جس نے ہندوستان پر قبضے کی اصل بیناد رکھی تھی۔ جس بے رحمی ساتھ اس نے ہندوستان پر کمپنی کی حکومت کا سکہ بٹھایا تھا اسے پڑھ کر آج بھی آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس بندے نے جو ہندوستان سے نوابوں اور جاگیرداروں اور بزنس مینوں سے رشوت کہیں یا زور زبردستی کی دولت اکٹھی کی اور لندن لے گیا وہ پڑھ کر آپ کئی دن حیران رہتے ہیں کہ ہندوستان کے پاس کسی دور میں بے پناہ مالی اور معاشی وسائل تھے۔ یہ خطہ کب سے لٹ رہا ہے لیکن مجال ہے یہاں رزق یا وسائل کی کبھی کمی ہوئی ہو (ماسوائے بنگال قحط کے جس کی خیر کافی وجوہات تھیں)۔
اور یوں صفدر بھائی نے کلائیو پر ایک کی بجائے دو بکس بھیجی ہیں اور بقول ان کے مزید کی تلاش جاری ہے۔ ساتھ میں شارٹ اسٹوریز کی بکس اور واٹر لو جنگ کے اہم کرداروں بارے کتاب۔ وہ اہم جنگ جس نے یورپ کے ساتھ ساتھ نپولین کی قسمت کا فیصلہ بھی کر دیا تھا۔
صفدر بھائی جیسے دوست ہوں تو زندگی کتنی خوبصورت اور اہم لگتی ہے۔