دوبئی سے طاہر علی بندیشہ اپنے دوست سرمد خان ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کافی دیر تک ایف سکس اسلام آباد مرکز کی سپر مارکیٹ کے ایک کیفے پر طویل گپ شپ رہی۔ کھانا وہ اظہارالحق صاحب سے کھا کر آئے تھے ورنہ لنچ ہوسٹ کرنے کی ریکوسٹ کی تھی۔
سرمد خان بتانے لگے میں پہلے بھی ایک دفعہ ان سے مل چکا ہوں۔ وہ بولے 2015 میں لاہور آواری ہوٹل کی لفٹ میں سے آپ نکل رہے تھے تو میں وہیں لفٹ پر چڑھنے کے لیے انتطار کررہا تھا تو ہینڈ شیک ہوئے تھے۔ میں نے آٹھ برس پہلے کا ہینڈ شیک یاد رکھنے پر سرمد خان کو کھل کر داد دی۔ جس پر انہوں نے آٹھ برس پرانی وہ گفتگو بھی سنا دی جو بقول ان کے اس لفٹ کے دروازے پر ہمارے اترتے چڑھتے پانچ سکینڈز کے ہمارے ہینڈ شیک دوران ہوئی تھی۔
سرمد خان ہمارے روایتی پشتون بھائی ہیں اور بغیر لگی لپٹی بات کرتے ہیں۔ سیدھے فائر اور کھرے بندے جو کوئی بھی بات پوچھ لیتے ہیں۔
آن اے لائٹر نوٹ تو مجھے لگا سرمد خان دوبئی سے مجھے ملنے نہیں بلکہ میری "انکوائری" کرنے آئے تھے کہ میں لندن کس جگہ رہتا رہا، وہاں کیا کرتا رہا اور سب سے اہم بات کہ میں لندن سیٹل ہونے کی بجائے پاکستان کیوں آگیا تھا۔ لیکن مجھے خوشگوار حیرانی ہوئی انہیں میرے 2007 کے شروع میں جنگ اخبار میں لکھے سب کالم اور ان کالموں کے کریکٹرز تک یاد تھے جب میں نیا نیا لکھنا شروع کررہا تھا۔
خیر مجھے زندگی میں جن دو تین نوجوانوں کو مل کر احساس ہوتا ہے کہ یہ "بیبے لوگ" ہیں ان میں طاہر بندیشہ شامل ہے اور دوسرا ہمارا اپنا زاہد گشکوری۔ اگر مجھے کوئی کہے کہ یار کسی روایتی اور مروتی سرائیکی بندے سے ملنا ہے تو میں اسے کہوں گا ہمارے پیارے زاہد گشکوری سے مل لو۔
طاہر تو معصوم اور بے ضرر سا نوجوان جس کی باتوں اور مسکراہٹ سے آپ کو محبت ہو جائے۔ وہ بہت خوبصورت پنجابی بولتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں سرائیکی زبان کسی سرائیکی لڑکی سے سن کر مزید میٹھی لگتی ہے (خیر لڑکی کی تو کوئی بھی زبان ہو پیاری ہی لگتی ہے) ویسے ہی پنجابی زبان طاہر علی بندیشہ سے سن کر زیادہ پیاری لگتی ہے۔
طاہر بندیشہ کتابوں کا رسیا ہے اور جب میں نے طاہر اور سرمد کی کار کی ڈگی اور بیک سیٹ پر بیگز اور ڈبوں میں بھری کتابیں دیکھیں جو خصوصی طور پر وہ دوبئی سے لاہور کتب میلے سے خریدنے کے لیے آئے تھے تو پہلی دفعہ کسی کی پوری گاڑی ڈگی سمیت چرانے کو دل کیا۔
طاہر پوچھنے لگا آپ کو پڑھنے کا وقت کیسے مل جاتا ہے کیونکہ کالم، ٹی وی شو، وی لاگز بھی کرنے ہوتے ہیں۔
میں نے کہا یار زندگی میں جو چیز آپ کو اچھی لگتی ہے آپ اس کے لیے ہمیشہ وقت نکال ہی لیتے ہیں چاہے وہ آپ کی گرل فرینڈ ہو، اپنے بچے ہوں، کتاب ہو، فلم ہو یا دوست۔ (میری بیگم تک یہ پوسٹ یقینا تین چار دن بعد پہنچے گی اور اپنا نام اس لسٹ میں نہ پا کر کچھ دن منہ بنائے رکھے گی۔ اگر میں دل بڑا کرکے ان کا نام اس فہرست میں لکھ بھی دوں تو فورا کہے گی خود کو فیس بک پر اچھا کہلوانے کے چکر میں یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ بیگم صاحبہ کے متوقع جواب کا سوچ کر ہی سچ بولنے کا بہادرانہ فیصلہ کیا ہے)۔
کل کی ڈاک سے اے حمید کے لکھے خاکوں کی یہ شاندار کتاب آئی تھی جو ایک آن لائن اولڈ شاپ سے خریدی تھی۔ اصغر ندیم سید اور جاوید صدیقی کے لکھے خاکوں کی کتابوں نے جو نشہ طاری کیا تھا وہ ابھی تک اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ دیکھتے ہیں اب اے حمید اس نشہ کو چوکھا رنگ چڑھاتے ہیں یا پھر اتارتے ہیں۔
مجھے آپ کا نہیں پتہ لیکن ایک تو میں بیک وقت تین چار کتابیں پڑھ رہا ہوتا ہوں دوسرے مجھے کتاب پڑھنا اس وقت زیادہ اچھا لگتا ہے جب "پوری دنیا" سو رہی ہو۔ پوری دنیا سے یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ خیر آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں وہ پوری دنیا خود ہی سمجھ جائے گی۔