خوبصورت بھارتی ایکٹریس ٹوئنکل کھنہ آج کل گولڈ اسمتھ کالج لندن میں پڑھ رہی ہے۔ ان کی عمر 48 برس ہے اور creative/script writing میں ماسٹرز میں داخلہ لیا ہے۔
ان کی تصویر دیکھ کر سولہ برس پرانی یادیں لوٹ آئیں۔ گولڈ اسمتھ کالج لندن میں میرا اپنا بہت کچھ وہاں رکھا ہے۔ میں نے 2006/07 میں ایک سال وہاں ماسٹرز کی کلاسز پڑھیں۔ Political communication میں ماسٹرز کیا۔ وہاں کے کیفے پر کئی خوبصورت اور سرسبز گراونڈز میں رکھے بینچز پر کافی اور cookies ساتھ کئی دوپہریں گزاریں۔
کالج کے مین گیٹ پر جہاں ٹوئنکل کھنہ نے یہ تصویر لی ہے اس میں انٹر ہوتے ہی ساتھ میوزک کی کلاس کا بڑا ہال تھا۔ مجھے یاد ہے اس گیٹ سے انٹر ہوتے ہی بائیں طرف گورے لڑکے لڑکیاں وہاں ایک بڑے ہال میں بیٹھے میوزک کلاس میں پریکٹس کررہے ہوتے اور صبح سویرے کیا ہی سماں بنتا تھا۔
میں اکثر وہاں راہداری میں کچھ دیر رک کر ان طالبعلموں کو میوزک کی پریکٹس کرتے دیکھتا اور انگریز سروں کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرتا۔جتنی لگن اور دل جمعی سے وہ سب لڑکے لڑکیاں میوزک کو مذہب جیسا درجہ دے کر سیکھ رہے ہوتے مجھے ان پر رشک آتا۔ کئی دفعہ تو ایسا ہوا کہ کلاس سے لیٹ ہوا کہ مین گیٹ انٹر ہوتے ہی سامنے میوزک کی کلاس آپ کے پیروں کی زنجیر بن جاتی۔
ٹوئنکل کھنہ کو اس عمر میں ماسٹرز کرتے دیکھ کر یاد آیا اس کالج میں ہمارے ایک گورے کلاس فیلو ساٹھ برس کے اوپر تھے۔
میں نے ایک دن پوچھا سر آپ اس عمر میں کالج پڑھنے کیسے آگئے؟ مطلب یہ تھا کہ ہمارے حساب سے تو آپ کی اللہ اللہ کرنے کی عمر ہے، آپ کسی چرچ گرجا میں جانے کی بجائے کالج چلے آئے ہیں۔ وہ سنجیدہ ہوکر کہنے لگے میں یہاں لندن کے ایک سکول میں ٹیچر تھا۔ ساری عمر بچوں کو پڑھایا۔ میں نے گریجویشن کی ہوئی تھی۔ دھیرے دھیرے مجھے احساس ہوا میرے شاگرد تو مجھ سے ہی پڑھ کر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کر گئے تھے اور میں گریجوشن کرکے ہی ساری عمر پڑھاتا رہا۔
کہنے لگے میرے اندر احساس پیدا ہونے لگا کہ میرے شاگرد مجھ سے زیادہ پڑھ لکھ گئے تھے۔ میں کنویں کا مینڈک ہی رہا۔ مجھے میرے شاگرد آتے جاتے ملتے تو پتہ چلتا رہتا کون کہاں سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کر گیا تھا۔ مجھے لگا میں تو اپنے شاگردوں سے پیچھے رہ گیا ہوں۔ میں نے خود کو وقت کے ساتھ آپ گریڈ نہیں کیا۔
میں نے سوچا تھا اب ریٹائرڈ ہو کر ماسٹرز کروں گا۔ اب ریٹائرمنٹ بعد جو پیسے ملے ان سے اب داخلہ لے کر گولڈ اسمتھ میں ماسٹرز کرنے چلا آیا تھا۔
اب اپنی پینشن سے دس ہزار پائونڈز کی فیس دے کر وہ پڑھ رہا تھا۔
میں نے کہا سر شکر کریں ہمارے ہاں پاکستان میں ہوتے تو ہم سب نے جگتیں مار مار کر حشر کر دینا تھا کہ عمر دیکھو تے شوق ویکھو۔
پوری یونیورسٹی میں آپ کا مذاق بنتا۔ لڑکیاں آپ کو دور سے دیکھ کر دوپٹے میں منہ دے کر کھی کھی کرکے ہنستیں۔
وہ بولے کیا مطلب۔ میں نے کہا سر جی چھوڑیں۔ چلیں کالج کیفے چلتے ہیں۔ آپ کو اس بات پر کافی پلاتے ہیں۔ وہ فورا بولے مسٹر رئوف لیکن میں اپنا بل خود دوں گا۔ تم ایشین کو بڑی بیماری ہے دوسروں کا بل دینے کی۔
ایک تو دل کیا انہیں بل دینے دوں کہ یہ سب گورے لڑکے لڑکیاں اپنا اپنا بل دے کر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ پھر کہا سر جی جب تک ہم کسی کو کھلا پلا نہ لیں یا اس سے رج کے نہ کھا لیں تو ہمیں اس سے فرینک/دوستی کرنے میں مسئلہ رہتا ہے۔ آپ پہلے ہی پنشن سے فیس دے رہے ہیں، اب "ڈیرہ پائونڈز" کا خرچہ کافی پر کریں گے۔ آج کی کافی میری طرف سے۔۔
کچھ دیر انہوں نے سوچا اور پھر بولے۔۔ Thank you. As you wish.
میری اکثر کلاس فیلو لڑکیاں بھی کچھ ہچکچاہٹ بعد مجھے کیفے پر کافی کا بل ادا کرنے دیتیں تھیں۔ ایک کلاس فیلو کچھ زیادہ کلاس فیلو بن گئی تھی تو ایک دن اس کی دوسری کلاس کی دوستوں کا بھی بل دے دیا تو وہ ناراض سی ہوگئی۔
کہنے لگی سب کا بل نہیں دیتے۔ تم میرے دوست ہو تو صرف میرا بل دیا کرو اگر دینا بہت ضروری ہو۔
میں نے کہا یار ہم دیسی لوگ کنٹین یا ہوٹل پر سب کا بل دیتے ہیں۔ برا لگتا ہے کہ جیب سے تین پائونڈز نکال کر اپنا اور تمہارا بل دے دوں اور باقی اپنے اپنے ڈیرہ پائونڈز نکال کر میز پر رکھ رہے ہوں۔
وہ بولی پھر کسی دیسی سے ہی دوستی کر لو—اپنے ایشین گینگ میں تم خوش رہو گے۔ کھاتے کھلاتے رہنا۔