1951 تک بجٹ پاکستان میں پیش ہوتا تھا تو اس کی دھوم (ماتم) بھارت میں مچ جاتی تھی۔ بابا اردو مولوی عبدالحق کے 20 مارچ 1951 کے ایک مکتوب مطابق اس سال بجٹ 29 کروڑ روپے کا سرپلس تھا۔ کوئی نیا ٹیکس نہیں تھا۔
بہت سارے لوگ یہ پڑھ کر رونا دھونا شروع کر دیں گے کہ ہائے ہائے کتنا اچھا دور تھا وہ۔ اب تم ہم لٹے گئے ہیں۔ ہم برباد ہوگئے ہیں۔ ذہن میں رکھیں وقت کے ساتھ جو آبادی بڑھی ہے اور سہولتیں ملی ہیں وہ 1951 تک سوچی نہیں جا سکتی تھیں۔
میں اپنے گائوں میں 1982/83 میں بجلی آنے سے پہلے کا گائوں یاد کرتا ہوں اور آج جاتا ہوں تولگتا ہی نہیں یہ علاقہ کبھی گائوں رہا ہوگا۔
مجھے یاد ہے ہمارے استاد محترم غلام محمد صاحب 1980 کی دہائی کے کسی سال ایک نیا سائیکل لائے تھے تو بچوں پر مشتمل پورا گائوں اکٹھا ہوا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ نئی سائیکل آئی ہے۔
ہمارے استاد محترم کو بچوں کو پڑھانے کا شوق نہیں بلکہ یوں کہیں جنون تھا۔
مجھے وہ وقت یاد کرتے ہوئے گارشیا کا ناول "تنہائی کے سو سال" یاد آجاتا ہے اور نعیم بھائی جنہوں نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کبھی کبھار تو لگتا ہے گارشیا کا ناول ہمارے گائوں کی کہانی ہے۔
سائیکل دیکھنے والے اس ہجوم میں میں بھی شامل تھا جو وہ نیا سائیکل دیکھنے گیا تھا۔ ہم سب کے والدین کاشتکار تھے۔
آج اس گائوں جائوں تو وہاں اس گائوں کے ہر گھر میں نئی نئی گاڑیاں ہیں۔ کچے گھر کب کے ختم ہوچکے۔ اب وہاں کوٹھیاں ہیں۔
زیادہ دور نہیں ہمارے تیس سال پہلے بزرگ جو فوت ہوئے وہ لوٹ آئیں تو وہ اب اپنا گھر گائوں میں نہ ڈھونڈ سکیں اور جو ترقی ہوئی ہے اسے دیکھ کر حیرت سے دوبارہ چل بسیں۔
موٹر سائیکل تو اب وہاں صرف مزدور طبقہ استمعال کرتا ہے۔ سائیکل کا تو اب گائوں میں نام و نشان تک نہیں رہا۔
اس وقت سہولتیں نہیں تھیں تو بجلی گیس کے بل بھی نہیں تھے۔ موٹر سائیکل کاریں نہیں تھیں بلکہ سائیکل تھے تو پٹرول ڈیزل کے ریٹس کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ جس کے پاس سائیکل تھی وہی بادشاہ تھا۔ جس کے گھر سکوٹر اور موٹر سائیکل تھا وہ امیر کہلواتے تھے۔ پھر کلر ٹی وی اور وی سی آر والے امیر کہلوائے
ترقی اور سہولتوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
لیکن عجیب بات ہے آج جس سے ملو چاہے وہ تیس چالیس لاکھ کی گاڑی پر سوار ہوگا وہ آپ کو روتا ہوا ملے گا۔ ان سب کا وہ ماتم سن کر مجھے چالیس سال پہلے اپنے گائوں میں بچوں کا وہ ہجوم یاد آ جاتا ہے جو استاد غلام محمد صاحب کے گھر کے صاف ستھرے پانی کے چھڑکائو سے ٹھنڈے صحن میں شام کے وقت نئے سائیکل کا سن کر اکٹھا تھا۔
میں بھی اس پرجوش ہجوم میں شامل تھا جو استاد غلام محمد صاحب کو رشک بھری نظروں سے اپنی سائیکل کو محبت اور پیار سے ٹاکی شاکی مارتے دیکھ رہے تھے۔