Apna Luqman
Riayatullah Farooqui92 News692
عمر یہی کوئی بیس برس رہی ہوگی جب عثمانیہ سوسائٹی کراچی کی جامع مسجد عثمانیہ کے کچھ بزرگ نمازیوں کے ساتھ مستقل رفاقت قائم ہوگئی۔ لگ بھگ ہر نماز میں ان سے آمنا سامنا ہوتا، یہ آمنا سامنا کھڑے کھڑے سلام دعا میں بدلا اور سلام دعا باقاعدہ مجلس میں بدل گئی۔ مجلس اشراق کے بعد مسجد کے کشادہ وضو خانے یا صحن میں جمتی۔ رفتہ رفتہ یہ مجالس روزانہ کا باقاعدہ معمول بن گئیں اور وہ بھی اس درجے کی کہ عام دنوں میں معاملہ صرف مجلس تک رہتا لیکن ہر جمعے کے روز اس مجلس کے بعد کراچی کے کسی بھی نہاری ریسٹورنٹ پر ناشتہ بھی ہوتا۔ برادرم قاری حمایت اللہ جو عمر میں مجھ سے پانچ سال چھوٹے ہیں وہ تو یہ مجلس کسی صورت قضا نہ ہونے دیتے جبکہ میں کبھی کبھار ڈنڈی مار لیتا۔ اس مجلس میں ہم دونوں بھائیوں کے علاوہ تمام افراد پچاس سے اوپر یا اس کے آس پاس عمر کے تھے، لیکن ہمیں ان کے حضور با ادب با ملاحظہ نہ بیٹھنا پڑتا۔ سب سے معمر ابراہیم بھائی تھے جو تب ساٹھ برس سے اوپر کے ہی تھے۔ ان کے بعد امین بھائی تھے جو ایکسائز میں آفیسر تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ "بس ریٹائر ہونے والا ہوں " تیسرے حاجی محمد علی صاحب تھے جو امین بھائی کے ہم عمر تھے اور چوتھے مشکور صاحب تھے جو شاید چالیس کے لگ بھگ تھے۔ ہم دونوں بھائی پوری بے تکلفی سے اس مجلس کا لطف لیتے، اور ان بزرگوں کی شفقت دیکھئے جن کے نام کے ساتھ "بھائی" لکھا ہے، انہیں مخاطب بھی یوں ہی نام کے ساتھ بھائی لگا کر کرتے اور یہ اس کے باوجود ناگواری کا اظہار نہیں فرماتے کہ عمر کے لحاظ سے یہ ہمارے والد کی جگہ تھے۔ یہ تمام بزرگ ہمارے والد صاحب رحمہ اللہ کے درس قرآن کے مستقل شریک تھے۔ ان میں سے امین بھائی تو اٹھارہ سال تک مسلسل اس درس کا حصہ رہے جس میں دو بار درس قرآن کی تکمیل ہوئی۔ ان مجالس میں چونکہ بے تکلفی سے دنیا جہاں کی گفتگو ہوتی، سو ہمیں معمولی سا بھی جھجکنا نہیں پڑتا تھا، لھذا جب ہم کچھ ایسیاوٹ پٹانگ بات کر جاتے جو ناتجربہ کاری کے سبب ہوتیں تو یہ جہاں دیدہ بزرگ ہمارا خوب مذاق بھی اڑا لیتے اور ساتھ ہی ہمیں صراط مستقیم بھی دکھا دیتے۔ گویا ہماری احمقانہ دانشمندی انہیں ہنسنے کا موقع فراہم کرتی اور ان کی حقیقی دانشوری ہمیں زندگی کے رموز سکھاتی جاتی۔ یوں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے شعور کی تربیت کا ایک ایسا اعلیٰ بندو بست ہو گیا تھا جس کے فوائد کا کوئی حساب ہی نہ تھا۔ سیاست اور معاشرت کا کونسا ایسا پہلو تھا جو ان مجالس میں زیر بحث نہ آیا ہو۔ اسی دوران میری تعلیم مکمل ہوئی اور میں اپنے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے ہاں کام کرنے لگا تو اپنے حضرت اور دفتر کے قصے بھی ان مجالس میں بیان کرتا۔ ان قصوں کا کوئی باقاعدہ مقصد نہ ہوتا بلکہ باتسے بات نکلتی اور دفتر یا حضرت کا ذکر چھڑ جاتا۔ حضرت کے اس مستقل ذکر سے یہ غائبانہ طور پر ان سے اسقدر متاثر ہوئے ایک روز سب نے اجتماعی طور پر کہا "ہمیں حضرت کے ہاتھ پر بیعت کرادو" یوں ان تمام کا حضرت کی شہادت تک ان سے مستقل تعلق قائم ہوگیا جس سے ہماری مجالس کو مزید تقویت مل گئی۔ ہم دونوں بھائی عمر کے جس حصے میں تھے اس میں عام طور نوجوان گرم خون کے سبب جوش میں رہتے ہیں اور اس جوش کے زیر اثر انہیں بزرگ بیوقوف لگتے ہیں۔ چونکہ بلوغ کے بعد نئے نئے روشنی میں آئے ہوتے ہیں تو اپنی مینڈک جتنی حدِ نظر کو طور کی مسافت سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے شعور پر نصف احسان تو ان چار چھ بزرگوں کا ہے جو گپ شپ کی ان مجالس میں ہمارے شعور کو اتنی بلندی تک لے گئے کہ جب اس زمانے میں لکھنا شروع کیا تو بعض بڑی عمر کے قارئین بھی جب پہلی بار ملتے تو حیرت کا شدید جھٹکا کھائے بغیر نہ رہ پاتے۔ خاص طور پر ڈاکٹر سعید قاضی آج تک نہیں بھولے جنہوں نے میرا شناختی کارڈ طلب کر لیا تھا تاکہ یہ بات سو فیصد پکی ہو سکے کہ میں ہی رعایت اللہ فاروقی ہوں۔ اسے نوجوانوں کی خوش بختی نہیں تو کیا کہا جائے کہ یہ چار چھ بزرگ پاکستان کی تقریبا ہر مسجد میں دستیاب ہوتے ہیں جو اذان کے ساتھ ہی مسجد آجاتے ہیں اور نماز کے فوراً بعد مسجد سے روانہ نہیں ہو جاتے بلکہ کافی دیر تک موجود رہتے ہیں۔ یہ بہت ہی منجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ زمانے کا سرد گرم انہوں نے چکھ رکھا ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض انجینئر تو بعض ماہرین تعلیم ہوتے ہیں۔ بعض ریٹائرڈ سرکاری افسر تو بعض اپنے وقت کے ماہر کار و باری رہے ہوتے ہیں لیکن بالفرض اگر یہ تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں تو ان کا تجربہ اور مشاہدہ ہی اتنا گہرا ہوتا ہے جو ینگ ڈگری ہولڈرز کی پوری کی پوری قطار کو دھول چٹانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اگر نوجوان چاہتے ہیں کہ انہیں بلا معاوضہ ایسے اساتذہ دستیاب ہو سکیں جو انہیں زندگی اور اس کی سنگینیوں سے نمٹنے کے ہنر سے آراستہ کر سکیں توانہیں اپنی اپنی مساجد کے ان بزرگوں سے سنگت بنانی چاہئے۔ آپ یقین کیجئے یہ اسقدر شفیق ہوتے ہیں کہ آپ کے فقط قریب جانے کی دیر ہے۔ وہ آپ کو اپنی آغوش میں لینے کو بیقرار ملیں گے۔ انہیں کوئی درخواست وغیرہ دینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس آپ دو دن ان سے ہر نماز کے بعد ہاتھ ملا کر نکل جائیں۔ تیسرے دن وہ خود آپ کا وہی ہاتھ پکڑ کر آپ سے آپ کا تعارف اور مصروفیات پوچھیں گے۔ اور یہیں سے آپ کی تربیت شروع ہو جائے گی۔ آپ کو کسی ایک سے ہی متعارف ہونا ہے، باقیوں سے وہی آپ کو جوڑ دیں گے کہ یہ بزرگ باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے اپنے لوکل لقمان حکیم ہیں بس اپنے لقمان کی انگلی تھام لیجئے!!!