Rishton Ki Hararat
Riayatullah Farooqui92 News594
ہمارے ذاتی تجربات سے بڑی سیکھ شاید ہی کوئی چیز مہیا کرتی ہو۔ اور عملی تجربہ ایسی چیز ہے جو پڑھے لکھے اور ان پڑھ کا ایک جیسا اہم ہے۔ فرق بس شاید اتنا ہی ہو کہ پڑھا لکھا شخص اپنے تجربات کا تجزیہ علمی بنیاد پر کرنے کی سہولت سے بھی آراستہ ہوتا ہے ورنہ نتائج دونوں ہی کے تجربات کے شاید ایک جیسے ہوں۔ میرے لئے زندگی کے بعض موڑ اس لحاظ سے بہت اہم ثابت ہوئے کہ ان کے متعلق کتابی تصورات کچھ اور تھے جبکہ عملا کچھ اور ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ممکن ہے سیانوں کی لکھی کچھ باتیں محض تصوراتی ہوں تجرباتی نہ ہوں۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی ہستی سے منسوب بعض باتیں شاہراہ حیات پر وہ نتائج مہیا نہیں کر پاتیں جو انہوں نے کتابوں میں بتا رکھے تھے۔ مجھے ان دنوں ایک دلچسپ اور بہت اہم ذاتی تجربے کا سامنا ہے۔ چونکہ یہ بچوں اور خاندانی نظام سے متعلق ہے سو اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے قارئین کے ساتھ بانٹنا مفید ہوگا۔ 1994ء کا نومبر مہینہ تھا جب میرے دفتر نے مجھے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کا کہا۔ تب میری عمر پچیس برس تھی اور میرے دو بچے تھے۔ مجھے اسلام آباد بہت پسند تھا مگر ایک بہت ہی اہم چیلنج والد مرحوم سے وہاں شفٹ ہونے کی اجازت کا حصول تھا۔ معمولی سے تردد کے بعد یہ اجازت انہوں نے عنایت کردی اور یوں میں اپنی فیملی سمیت اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ تب سے اب تک یہیں ہوں۔ اب عمر کے پچاسویں برس میں ہوں اور بڑے بیٹے کی شادی بھی ہوچکی جس کا ایک بچہ بھی ہے۔ چوبیس برس قبل اسلام آباد منتقل ہوتے وقت خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ میرے آٹھ میں سے کم از تین چار بھائی تو اسلام آباد منتقل ہوہی جائیں گے جس سے اس شہر میں مستقل پڑاؤ کی صورت قائم ہوجائے گی۔ مگر ہوا یہ کہ اس عرصے میں بس ایک ہی بھائی یہاں منتقل ہوا۔ میرا عشق البتہ اس شہر کے ساتھ پوری طرح قائم و دائم ہے کہ سکون سے بڑی نعمت میری نظر میں کوئی اور ہے نہیں اور یہ نعمت یہاں وافر ہے۔ سو بیٹے کی شادی تک تو یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سکون چھوٹنے کو ہے۔ جس طرح مجھے اسلام آباد بھا گیا تھا اسی طرح میرے بڑے بیٹے کو کراچی بھا گیا۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے اس نے اولا اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیوں نہ سب واپس کراچی منتقل ہوجائیں؟ ۔ پدرانہ اختیارات کا کھلا استعمال کرتے ہوئے میں نے یہ تجویز رد کردی۔ دوسری تجویز اس نے یہ پیش کی کہ اسے اپنی فیملی سمیت کراچی میں بسنے کی اجازت دیدی جائے۔ یہ تجویز بھی پدرانہ اختیارات کا سامنا نہ کر پائی۔ تیسری تجویز یہ آئی کہ اسے کراچی میں کام کرنے کا موقع دیا جائے، فیملی بیشک اسلام آباد میں رہ لے۔ اس تجویز کی خاص بات یہ تھی کہ یہ میرے پوتے کی ولادت سے قبل آئی تھی۔ میں نے اسے یہ سوچ کر قبول کرلیا کہ اس دوران میرے دوسرے بیٹے کی تعلیم بھی مکمل ہونے والی تھی جس سے صورتحال نے بہر حال کوئی نیا موڑ تو لینا ہی تھا، سو بہتر تھا کہ وہ موڑ بھی دیکھ لیا جاتا۔ خیال تو یہ تھا کہ دوسرے بیٹے کی تعلیم مکمل ہونے پر صورتحال کوئی نیا اور بڑا موڑ لے گی مگر ہوا کچھ اور۔ طارق کی تعلیم مکمل ہوئی تو اس نے تو یہ کہہ کر کہانی کے نئے موڑ کا امکان ہی ختم کردیا کہ مجھے ماں باپ کے ساتھ رہنا ہے۔ سو جہاں ماں باپ رہنا چاہتے ہیں وہیں جاب ڈھونڈوں گا۔ اگر غور کیجئے تو یہ عین میری آرزو کی تکمیل تھی مگر اسی دوران میرے پوتے عمر عالم کی پیدائش ہوگئی۔ اس چند پونڈ کے بچے نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی روز سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ ایک مقامی ہسپتال کی پہلی منزل پر پوتا میری گود میں تھا، میں اس کے کان میں اذان دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ پچیس برس قبل میرے والد نے مجھے فیملی سمیت اسلام آباد منتقل ہونے کی اجازت دیدی تھی۔ پچیس برس بعد میں اپنے بیٹے کو یہ اجازت دینے میں تردد کا شکار ہوں۔ چنانچہ موجودہ صورتحال میں اگر میرا بیٹا کراچی میں ہی رہ کر کام کرتا ہے تو ہوگا یہ کہ میرا بیٹا بھی مجھ سے دور ہوگا اور اس کا بیٹا بھی اس سے دور۔ نتیجہ یہ کہ میں بھی تکلیف میں، میرا بیٹا بھی تکلیف میں اور اس کا بیٹا بھی تکلیف میں۔ اس پورے معاملے کا سب سے باریک نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ میں اپنے بچوں سے مستقل دور نہیں رہ سکتا۔ مجھے اپنے کیریئر کے دوران دو بار بیرون ملک جاب کا موقع میسر آیا جن میں سے ایک تو بہت ہی اہم تھی۔ لیکن دونوں بار وہ جاب اس لئے نہ لی کہ وہ بھی بھلا کوئی زندگی ہوئی جس میں آپ یہ کہہ کر اپنے بچوں سے الگ جئیں کہ میں بچوں کے لئے پردیس میں قربانی دے رہا ہوں۔ کس کام کا وہ پیسہ کہ پیسہ تو مل جائے لیکن اولاد کی زندگی کا ایک بڑا حصہ نظروں سے گزرے بغیر گزر جائے؟ سال میں ایک دو ماہ کے لئے گھر آئے اور ایک بار پھر یہ کہہ کر ان سے دور ہولئے کہ ان پر احسان دھرنے جا رہا ہوں ! انمول ہیں وہ غریب لمحے جو فیملی کے ساتھ گزر جائیں، آگ لگے ایسی آسودگی کو جس کا سامان ڈھونڈنے میں فاصلوں کی طوالت رشتوں کی حرارت ہی ختم کردے۔ اگر دولت کمانے کے چکر میں کوئی اولاد سے کئی کئی سال دور رہ رہا ہے تو اس کی نظر میں اہمیت دولت کی ہے اولاد کی نہیں۔ وہ ایک دن دولت تو کما لے گا لیکن جب کما کر لوٹے گا تو اپنے بچوں کی آنکھوں میں وہ چمک اسے شاید ہی نظر آسکے جو باپ کو دیکھ کر اولاد کی آنکھوں میں خود کار طور پر آجایا کرتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی کچھ نہ کچھ اہمیت تو رکھتا ہوگا کہ اگر انسان معاشرتی جاندار ہے تو پھر یہ ان رشتوں کے بغیر کیسے جی لیتا ہے جو معاشرت کی اساس ہیں؟ یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ ہم چند آسائشوں کے حصول کے لئے پوری زندگی برباد کر دیتے ہیں، لیکن جب یہ آسائشیں میسر آجاتی ہیں تو وقت اور رشتے دونوں ہی ہاتھ سے جا چکے ہوتے ہیں۔ اور اس پورے معاملے میں اس عہد کے انسان کی فکری حالت تو دیکھئے کہ اپنا مکان اور ایک مناسب سی کار اس کا وہ کل مقصد حیات ہے جس کے لئے جدوجہد کرتے کرتے زندگی ہجرتوں سمیت تمام کی جا رہی ہے۔