خطبہ الٰہ آباد کا شمار تحریک پاکستان کی اہم ترین دستاویزات میں کیا جاتا ہے۔ خطبہ الٰہ آباد اور نظریہ پاکستان دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے آئینہ دار ہیں بلکہ فلسفہ اور عصری سیاسی تقاضوں کے اعتبار سے باہمی طور پر ہم آہنگ ہیں۔ نظریہ پاکستان بنیادی طور پر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن کے اپنے اپنے جداگانہ مذاہب، ثقافتیں اور رسوم و رواج ہیں۔ خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں اس وقت دیا گیا جب برصغیر میں ہندو اور مسلمان برطانوی سامراج کے غلام تھے اور دور دور تک ان کی آزادی کے آثار نظر نہیں آتے تھے اگرچہ لاکھوں فرزندان توحید شمع آزادی پر قربان ہو چکے تھے۔ اس خطبہ میں مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے پہلی مرتبہ ایک مضبوط پلیٹ فارم سے برصغیر کے شمال مغربی مسلم علاقوں پر مشتمل ایک آزاد خود مختار مسلم ریاست کا تصور پیش کیا جو کہ نظریہ پاکستان کا عکاس تھا۔
پروفیسر مسعود الحسن، سید علی ہجویری ؒ (حضرت داتا گنج بخشؒ) کی روحانی بائیوگرافی میں رقم طراز ہیں کہ میں نے 1929 میں لاہور آکر داتا صاحب کے مزار کے قریب رہائش اختیار کی۔ میں ان دنوں نماز تہجد کے وقت مزار سے ملحق مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے جایا کرتا تھا۔ یہاں پر علامہ اقبالؒ سے ملاقات ہوتی تھی۔ علامہ ؒ نے بتایا کہ مجھے سید علی ہجویری ؒ کی جانب سے روحانی بشارت ہوئی ہے۔ میں نے الہ آبادمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ خطبہ بھی داتا صاحب نے مجھے لکھوایا ہے۔ اسی طرح قائد اعظم سے بھی ایک انگریز مصنف نے پوچھا کہ آپ کو قیام پاکستان کا خیال کیسے آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے دل میں ان دنوں قیام پاکستان کے بارے میں سوچ پیدا ہوئی۔ مولانا حسرت موہانی ایک بار علی راشدی کیساتھ اجلاس میں شرکت کیلئے ممبئی جا رہے تھے۔ کلمات حسرت موہانی کیلئے انہوں نے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکسان تو بن ہی جائے گا۔ اب آگے کیا ہوگا۔
یہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ہی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اجاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ علامہ نے انگریزوں اور ہندوؤں کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے مسلمانان ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطہ ارضی کی ضرورت محسوس کی۔ اپنے خطبہ الٰہ آباد میں ان کی الگ مملکت کا پورا نقشہ بھی پیش کر دیا۔ قائداعظم نے اقبال کے تصور پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسے حقیقت کے روپ میں ڈھال دیا۔ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ئ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔
شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے آباء و اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نور محمد کشمیر کے سپرو برہمنوں کی نسل سے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اسلام قبول کیا۔ کشمیری لوئیوں اور دھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ علامہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور گھر والے ہوئے۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں اٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ محمد اقبال کو شاعر مشرق کے طور پہ جانتے ہیں۔ محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہیوجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتب کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔ قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدتِ الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہوگئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری، 1912ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔
مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اْٹھے اور فرمایا: "مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا، اور خدا قسم! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔ ! "