خلیفہ ہارون الرشید نے مشہور بزرگ حضرت بہلول دانا سے پوچھا کہ اسلام میں جو یہ "قطع ید" یعنی چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا، اگر چور نے چوری"مستی"میں کی ہو تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر "نیستی"میں کی ہو تو حاکم وقت کا "سر" کاٹنا چاہیے۔ اس جواب میں بڑا خوب صورت قرینہ یہ ہے کہ ایسا حاکم جس کے عہد میں غریب رعایا چوری پر مجبور ہوتے ہوں۔
ان کے مسائل اور غربت کی جڑ حاکم وقت ہی ہوتا ہے اور یہ جواب بہلول دانا نے اسلامی حکومت کے لیے دیا ہے کیونکہ اسلامی حکومت اگر صحیح معنی میں اسلامی ہو تو اس میں کسی کو چوری کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ اس میں اتنی عدم مساوات، معاشی تفاوت اور اونچ نیچ پیدا ہی نہیں ہوسکتی کہ انسان مجبور ہوکر چوری کا ارتقاب کرے اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ مستی کا شکار ہے اور پھر اس کی سزا وہی ہے جو بہلول دانا نے کہی ہے۔ ہمیں یہی فکر ہے، باقی دنیا والوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انگار جانے اور لوہار جانے۔
علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری اور باباجی ڈیموں والی سرکار کی دعا سے، اب ہمارے پاس صرف انگار باقی بچے ہیں، اب تو ریاست مدینہ بھی ہے، اگر بہلول دانا کا یہ اصول لاگو ہوگیاتو،؟ ہمیں تو سوچ کر جھرجھری آجاتی ہے، اگر کلیہ پر عمل درآمد ہوگیا تو اپنے یہاں تو ہوُ کا عالم طاری ہوجائے گا۔
سمندر ہوں مگر لہریں نہ ہوں، اک ہو کا عالم ہو
یہی تو ہے محبت میں کسی ناشاد کا موسم
لیکن ہم تو یہاں محبت نہیں سیاست کی بات کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہم"ایسے"سر کہاں سے لائیں گے جن میں سال کے بارہ مہینے، مہینے کے تیس دن اور دن کے چوبیس گھنٹے بیانات بیانات جاری کرتے ہیں۔
گھٹائیں دل سے اٹھتی ہیں جھڑی آنکھوں سے لگتی ہے
نہ ہی ساون کی رت ہے، یہ کسی کی یاد کا موسم ہے
ہمارا تو مشورہ ہے کہ "ریاست مدینہ"کی باتیں اتنی زیادہ نہ کی جائیں بلکہ اس بات کو چھپانا ہی بہتر ہوگا کہ ہم ریاست مدینہ بنا چکے ہیں، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، اگر کسی نے سن لیا کہ ہم ریاست مدینہ میں پہنچ چکے ہیں یا ریاست مدینہ اپنے ہاں پہنچ چکی ہے تو اس میں ایسے قوانین کا مطالبہ نہ اٹھ کھڑا ہو جو ریاست مدینہ کے ساتھ مخصوص ہیں۔
اس شہر میں مشکل ہے کہ نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آگئی ہوتی ہوئی"سر"سے
ہمیں تو ابھی سے یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو "بے سر"کے حاکموں کو ہم کیا کریں گے، فی الحال تو خالی ہی سہی"سر"ہیں تو سہی گردنوں پر۔ اس لیے میرا سارے وزیروں، مشیروں، معانین خصوصیوں کو مشورہ ہے کہ اتنا زیادہ ریاست مدینہ ریاست مدینہ نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔
دھیرے دھیرے بول کوئی سن نہ لے
آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑے گا، حاکم آج کون سا اپنے "سر"سے کام لے رہے ہیں، سر کے بغیر بھی کام تو چلتا ہی رہے گا جیسے چل چل رہا ہے لیکن یہ تو محض خوش فہمیاں ہیں، ہمارے اتنے نصیب کہاں؟ اس نصیبے والی بات پر ہمیں اس دیہاتی کی یاد آگئی جو شہر سے "جلیبیاں "لے کرگھرگیا تھااور اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر کھارہاتھا۔ بچے نے جلیبیوں کا مزہ لیتے ہوئے کہا، ابا! یہ تو بڑی اچھی ہیں، اسے کیا کہتے ہیں؟ باپ نے بتایا اس چیز کو جلیبی کہتے ہیں۔ بیٹے نے پھر پوچھا، کون لوگ یہ جلیبیاں بناتے ہیں۔
اس زمانے میں حلوائی زیادہ تر ہندو ہوتے تھے چنانچہ باپ نے بتایا کہ ہندو بناتے ہیں۔ بیٹے کو جلیبیوں نے بڑا مزہ دیا تھا بولا، ابا چلو ہم بھی ان جیسا کاروبار کرلیں۔ باپ نے ایک لمبی آہ کھینچتے ہوئے کہا، بیٹے ہمارا اتنا نصیبہ کہاں کیونکہ ہندو تاجر مالدار ہوتے تھے۔ ہمیں بھی اپنا نصیبہ اچھی طرح معلوم ہے، لیکن پھر بھی اختیاط تو کرنا چاہیے، اگر لوگوں کو "ریاست مدینہ"کا پتہ چل گیا تو کہیں وہ بہلول دانا کا اصول لاگو کرنے پر نہ تل جائیں۔
جن کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آج کل خصوصی بولنے والوں کی بڑی کثرت ہوگئی ہے اور ہمارے ملک کو ہمیشہ "کثرت"ہی سے خطرہ لاحق ہوتا ہے، وژن سے لے کر ٹیلی وژن تک۔ بس یہی کہنا تھا اور اسی میں بھلائی ہے کہ "راز"کی یہ بات اتنی زیادہ نہ اچھالی جائے
خطاوار سمجھے گی دنیا تمہیں
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے