دائرہ مکمل ہوگیا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ کونسا دائرہ کہاں کادائرہ اورکس کے گرد دائرہ۔ تودنیا میں اورہے ہی کون جس کو دائروں، دیواروں اور زنجیروں میں باندھ کرکے لوٹا گیا، وہی جوخود کوعوام سمجھتاہے لیکن اصل میں کالانعام ہے جس کاصرف جسم کثرت استعمال کی وجہ سے ابھی بقیدحیات ہے لیکن دماغ عدم استعمال کی وجہ سے "زنگ کاٹکڑا" بن چکاہے۔ اس دائرے میں پہلے کہیں نہ کہیں رخنے یا درز وغیرہ مل جاتے تھے جس سے یہ فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتاتھا لیکن اب یہ دائرے ڈبل ٹرپل کانٹے دار تاروں کا ہے۔
ایک بہت پرانا لطیفہ ہے کہ ایک شخص نے کہاکہ میں بازارسے ملاوٹ بھرا سودا خریدتا ہوں کیوں کہ دکان دار کو بھی تو زندہ رہنا ہوتا ہے اسے کھاکر بیمار ہونے کے بعد ڈاکٹرکے پاس جاتاہوں، کیوں کہ ڈاکٹر کو بھی تو زندہ رہنا ہوتاہے، ڈاکٹردوائیں لکھتا ہے تو کیمسٹ کے پاس جاتاہوں کیوں کہ کیمسٹ کو بھی تو زندہ رہناہے کیمسٹ سے دوائیں خرید کر گٹرمیں پھینک دیتاہوں کہ مجھے بھی تو زندہ رہنا ہے۔
اوریہی صورت حال آج کل وہ دائرہ ہے جس کاذکرہم کرناچاہتے ہیں جسے حکومت نے اپنے بہت سارے ساجھے داروں کے تعاون سے مکمل کیا ہوا ہے۔ اس دن ہم گھر کے لیے سوداسلف خریدنے دکاندارکے پاس گئے تو اس نے جو تازہ ترین نرخ سنائے وہ ویسے ہی تھے کہ۔
کسی کے آتے ہی ساقی کے ایسے ہوش گئے
شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں
جب ہم نے دکاندارسے گھی گزوں اور میٹروں میں مانگا، دال چاول لیٹرکے حساب سے دینے کوکہا اوردیگر اشیاء کے لیے ملی لیٹروں ملی گراموں کاپیمانہ استعمال کیا تو دکاندار سمجھ گیا کہ نرخوں نے ہمارے دماغ کو ناگاساکی اورہیروشیما کردیاہے، اس لیے اس نے متبادل پیش کرتے ہوئے ان تمام چیزوں کے "دونمبر" نرخ سنائے، ظاہرہے کہ جب ہم یہ سب کچھ دونمبر ہی لائے ہیں۔
ارے ہاں یہ بتانا تو ہم بھول گئے کہ اس نے دونمبری کرتے ہوئے بتایاکہ اس کے پاس "اصلی دونمبر" مال ہے ورنہ دوسرے دکان دار تونقلی دونمبر نقلی تین نمبروغیرہ بیجتے ہیں چنانچہ اصلی دونمبرہی مال اٹھالائے۔
سیدھی سی بات ہے کہ یہ اصلی دونمبرکی خوراکی اجناس کھاکرہم سیدھے کسی اصلی دونمبری ڈاکٹر کے پاس جائیں گے جو آج کل ہرگاؤں، ہرشہر، ہربازار، ہرگلی، ہرکوچے میں سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے بھی زیادہ پائے جاتے ہیں کیوں کہ سنا ہے محکمہ صحت نے ان دونمبریوں کی ترقی بڑھوتری اورپھیلاؤ کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہوئے ہیں بلکہ ان دونمبری دواؤں کی سپلائی کویقینی بنانے کے لیے بھی پکے پکے انتظامات کررکھے ہیں۔
ظاہرہے کہ جب ہم ان کے پاس جائیں گے تو وہ بھی دونمبری کریں گے اوردونمبر دواسازوں کی دونمبری دوائیں ہمارے اوپرلاددیں گے۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ ہم وہ دوائیں کھائیں یازندہ رہیں، زندہ رہنا تو اس لیے بھی ضروری ہے کہ ابھی اوربہت سی دونمبریوں کوہمارے اوپر زندہ رہنا ہے، بیچارے لیڈر ہیں، پارٹیاں ہیں اوران کے پیدا کیے ہوئے سماجی کارکن ہیں، مخیر حضرات ہیں، این جی اوز ہیں، ماہرین عملیات وتعویذات ہیں، نمک خواران بلدیات ہیں ان سب کو بھی تو ہم نے زندہ رکھنا ہے۔
ویسے یہ بات ہمیں ان دواسازکمپنیوں نے سمجھائی ہوئی ہے کہ اپنے لیے جئیے توکیا جئیے۔
ایک مرتبہ پہلے بھی ہم نے ان کالموں میں جان بچانے والی دواؤں کاذکر کیاتھا کہ یہ کمپنیاں ایسی دوائیں اس لیے نہیں بناتیں کہ ان کو مریضوں کی زندگیاں عزیز ہیں بلکہ ان مریضوں کی برکت سے جن لوگوں کاکاروبار چلتا ہے انھیں زندہ رکھنا مقصود ہے۔
سیدھی بات ہے کہ یہ کمپنیاں اگر ایسی دوائیں نہ بنائیں اورخدانخواستہ مریض لوگ ان کے ہاتھ آئے بغیر پاسٹ آوٹ ہوجانے لگیں تو یوں سمجھ لیجیے کہ ان کی توساری دودھیل گائے مرگئیں پھر یہ دودھ کہاں سے دوہیں گے۔
ڈاکٹرامرود مردود کا قصہ تو ہم نے آپ کوسنایا ہے کہ جب وہ حج سے واپس آیا اوراس کے ایم بی بی ایس بیٹے نے اسے بتایا کہ ان کے جوچند پرانے مریض تھے جوسالہاسال سے آپ کے زیر علاج رہے تھے ان کومیں نے ٹھیک ٹھاک کردیا توڈاکٹر مردود نے حج کا ماسک منہ سے اتارتے ہوئے اتنی ناروا ناشنیدہ اورناقابل برداشت گالیاں سنائیں کہ قریب بیٹھے ہوؤں کو شرم آ گئی۔
ڈاکٹرمردود نے گالیوں کی ریپڈ فائرنگ میں چھوٹا سا وقفہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ہی مریضوں کی برکت سے تومیں نے تمہیں پڑھایا لکھایا ہے، جائیدادیں بنائی ہیں اورابھی اوربھی نیک ارادے تھے اورتم نے ان کواچھا کر دیا گویا میری دودھیل گائیں ذبح کرڈالیں۔
ویسے ڈاکٹر امرود کا بیٹا تازہ تازہ ایم بی بی ایس کرکے آیا تھا، اس لیے ناسمجھ تھا، بعد میں وہ بھی سمجھ گیا اوراب اتنا سمجھ دار ہوچکا ہے کہ باپ سے بھی کئی میل آگے نکل چکاہے۔ اگر آج دواساز کمپنیاں ایسی دوائیں بنانے لگیں جو مریضوں کوصحت یاب کریں توخود کیاکھائیں گی۔
بحرساکن ہو تو تم کوکوئی پوچھے بھی نہیں
ناخدا خیر منابحر میں "طوفانوں " کی