ویسے تواچھے لوگوں کی ساری بری عادتیں ہمارے اندرپائی جاتی ہیں لیکن منیرنیازی کے ساتھ نہ جانے ہمارا کونسا یاکس جنم کاکوئی رشتہ ہے کہ جوعادتیں انھوں نے بتائی ہیں وہ ہم میں بھی موجود ہیں ان میں ایک توان کاوہ مشہورو معروف شوق ہے کہ "کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی"اوردوسری وہ جو بزرگوں کے اقوال زریں کے بالکل خلاف ہے، بزرگ توکہتے ہیں کہ، جوکل کرے سوآج، جوآج کرے وہ اب، لیکن ہمارا اورمنیرنیازی کانظریہ ہے کہ
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اورتیسری وہ، کہ جس شہرمیں بھی رہنا۔ اکتائے ہوئے رہنا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی اکتاہٹ کا تعلق شہروں سے تھاجب کہ ہمارا تعلق حکومتوں کے ساتھ ہے کہ۔
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس "حکومت "میں بھی رہنااکتائے ہوئے رہنا
اوریہ عادت شاید ان کواس وجہ سے پڑی تھی کہ ان کواورہم کوہمیشہ ایک دریاپار کرنے کے بعد دوسرے دریاکاسامنا رہتاہے جسے آپ "حکومت " بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہرتبدیلی کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ شایدیہ ایک ہی آگ کادریاتھاجوہم پار کرآئے ہیں لیکن سامنے دیکھتے ہیں توکفن چورکابیٹا ہمارا منتظر ہوتاہے۔
خیرباقی ساری برائیاں توایک طرف کر دیجیے کہ ہم سچے پاکستانی ہیں اور پاکستانیوں کو دو چاربری عادتیں نہ ہوں یہ ہونہیں سکتا بلکہ حکومتیں ہونے نہیں دیتیں۔
اصل بری عادت یہ "دیرکرنے "کی ہے اورپھر خاص طورپر عشق کے معاملے میں تو ہم ہمیشہ دیرکردیتے ہیں اس کی وجہ ایک شاید یہ بھی ہے کہ ہم خود دنیا میں کافی دیرکرکے پیداہوئے ہیں۔
اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمیں جوپہلا عشق ہوگیا تھا وہ مغل بادشاہ کی بیٹی تھی جس سے خفیہ عشق ہو گیا تھا جونہ صرف صدیوں پہلے اعظم گڑھ کے پتھروں میں دفن ہوئی تھی بلکہ مرتے وقت اس کی عمر بھی ساٹھ سے زیادہ اورسترکے قریب تھی اس سے پہلے اس کی دادی ممتازمحل سے بھی عشق کرنے کاارادہ تھا لیکن اسے تاج محل میں لیٹنے کی جلدی تھی۔
اس لیے ہماراوہ غنچہ بن کھلے ہی مرجھاگیا، دوسراعشق ہم نے قرۃ العین طاہرہ زرین تاج سے کیاتھا جسے ایران کے ناصرالدین قاچارنے ایک کنوئیں میں بے نشان کر دیا تھااس پربہائی ہونے کاالزام تھا لیکن اگروہ قاچار سے شادی کرنے پرراضی ہوجاتی توسب کچھ ٹھیک ہوسکتا تھا۔ جس طرح فلموں میں سائیڈ ہیرو ہوتے ہیں اسی طرح ہمیں مصر کی قلوپطرہ سے سائیڈ عشق ہو گیا تھا۔ اسی طرح الزبتھ ٹیلر سے بھی ہمیں سائیڈ عشق تھا۔
ہماراآپ کو اپنے بے شمارعشقوں کے بارے میں بتانے کے مقصد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم ہرہرلحاظ سے لیٹ ہوجاتے ہیں۔ اب یہ دیکھیے کہ بہت سارے لیڈروں کے بارے میں ہمارے خیالات انتہائی نیک ہیں اور اس مرتبہ شہادت پر پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن برا ہو اس دیر کرنے کی منیرنیازی کی عادت کا کہ دیر ہوئی جا رہی ہے۔
ہمارے علاقے سے اوپرچراٹ کا پہاڑی علاقہ ہے اس کے زیادہ ترلوگ باہرکے ممالک میں مقیم ہیں چنانچہ دنیاجہاں سے جعلی عامل اور پیرآکر وہاں جلوے دکھاتے ہیں، ایسے ہی عامل کچھ عرصہ پہلے نہ جانے کہاں سے وارد ہوئے، آدمی کمال کے تھے، پہلے تواس نے قرب وجوارمیں کچھ لوگ پیرول پر رکھے جوان کی کرامات کے چرچے کرتے تھے۔
پھراس نے پک اپ ڈرائیوروں اورٹیکسیوں کے ڈرائیوروں کو بھی پے رول پر رکھ لیا، اس ڈبل آمدنی کے باعث وہ بھی سواریاں لاکر عامل صاحب کے آستانے پہنچاتے تھے، چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں ایک اژدہام ہوگیا، سیکڑوں لوگ بھری جیبیں اورخالی دماغ آتے اورخالی جیب اورعقیدت بھرا دماغ لے کرجاتے، سیکڑوں تواس نے بکریاں جمع کیں جو ارد گردکے پہاڑوں اورویرانوں میں چرتیں۔
پھرایک دن اچانک اس عامل صاحب کوکسی نے کیفرکردار تک پہنچایا، بہت سارے لوگ شک کے دائرے میں زیرتفتیش تھے جن میں ہمارے ایک دوست بھی شامل تھے جوقریبی گاؤں میں ڈاکٹری کرتے تھے۔ ہم نے علاقے کے ایس ایچ او کے پاس جاکراس کی صفائی میں کہاکہ وہ ایسے آدمی نہیں۔ ایس ایچ او نے کہا تو ہم کونسا اسے قاتل ٹھہراناچاہتے ہیں ہم تواس سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ نیک کام اگرکرنا تھا "اتنی دیر" کرکے کیوں کیا، چند سال پہلے کردیتے تو خلق خدا کا کچھ بھلاہوجاتا۔
ہمیں بھی معلوم تھاکہ جونیکی کاکام ہمیں کرنا ہے اسے بروقت کیاجائے توپاکستان کے بیچارے دردکے مارے اوران ہی لیڈروں کی ستائے ہوئے خلق خدا کی بھلائی ہوگی لیکن طبیعت میں جو "دیر" کرنے کی عادت ہے اسے کیا کریں۔
خداکرے کوئی ایسا نجات دہندہ مل جائے جس کی طبیعت دیرکرنے کی عادی نہ ہو بلکہ اگرکوئی کبیرداس کاپیروکار مل جائے جوکل کاکام آج اورآج کا کام "اب" کرنے کاقائل ہوتوکتنا اچھاہوگا۔
ویسے اس سلسلے میں اپنے کچھ دوستوں کوٹٹولا بھی ہے جن کے خیالات ہمارے خیالات سے ملتے جلتے ہیں لیکن اسے کیاکیجیے کہ وہ سب بھی "دیر" کرنے کے مرض میں مبتلاہیں، اب دیکھیے کہ کوئی جلدبازکب ہمیں دستیاب ہوتا ہے۔