Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Saad Ullah Jan Barq/
  3. Ein Gul Deegar Shaguft

Ein Gul Deegar Shaguft

ہم نے کہا تھا۔ کہا تھا ہم نے اور آپ نے مان بھی لیا ہے کہ ہمارا مسئلہ قلت کا نہیں بہتات کا ہے، دبلاپا نہیں مٹاپا ہے۔ یعنی ہر چیز کی فراوانی بہتات اورکثرت کسی دن ہمیں لے ڈوبے گی۔

توڑا شجر کی شاخ کو کثرت نے ثمر کی

موٹاپے نے ماری ہے میری ریڑھ کمر کی

ابھی ابھی کسی خاتون "طورو" کے بیان سے پتہ چلا کہ وژن کی ایک اور شاخ "پناہ گاہ" بھی پھوٹ نکلی یا شاید ہم کوپتہ نہیں تھا کہ ہشاش بشاش، احساس، حساس اور ایک ہزار ایک قسم کے کارڈز کے علاوہ کوئی پناہ گاہ بھی ہے اور جب نیا گاہ ہے تو اس طرح کے اور بھی بے شمار وژن ہوں گے جن کا ابھی پتہ نہیں کہ وژن کے رنگ اور جلوے ہزار ہیں۔

بہرحال اس محترم نے جوکچھ یا کوئی طورو میں کہا ہے کہ یہ دیکھ کر انھیں بہت خوشی ہوئی کہ لوگوں کومفت کھانا کھلایا جاتا اور چھت کے نیچے سلایا جاتا ہے کیونکہ وژن کا وژن ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے اورکوئی رات بغیر چھت کے گزارے۔

بڑے اچھے "وچار" ہیں بلکہ یہ وچار مشت پرست ہمارے وچاروں سے ملتے ہیں لیکن توڑا سا پرابلم اس دوسری بات کا ہے وہ تو ہمیں بلکہ ساری دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ وژن سے کوئی بھی بھوکا نہ سوتا ہے نہ سو سکتا ہے بلکہ اگر کوئی غلطی سے یا غیر قانونی طورپر بھی بھوکا سوبھی جائے تو اسے جگائے رکھنے کے لیے مکمل انتظامات موجود ہیں لیکن بغیر چھت کے رات گزارنے کا مسئلہ تھوڑا سا گھمبیر ہے کیونکہ گرمی یا کسی اور ضرورت کے باعث بہت سارے لوگ بغیر چھت کے بھی رات گزار لیتے ہیں جو وژن کے سخت خلاف ہے، وژن کے ہوتے ہوئے بغیر چھت کے رات گزارنا۔ یہ تو سراسر بے انصافانہ، بے وژنانہ اور بے تبدیلا نہ جرم ہے۔

بھوکے کو سونے نہ دینے کا مسئلہ تو بڑی آسانی سے مہنگائی اینڈ مہنگائی کمیٹی ٹھیکے پر دیا جا چکا ہے اور اس کمیٹی کے ہوتے ہوئے جس میں حکومت بھی سلیپنگ پارٹنر ہے کس کی مجال ہے جو بھوکا سوئے، بیک وقت دودوچیزوں کا استعمال ویسے بھی اسراف میں آتا ہے لیکن اس دوسرے ٹارگٹ… بغیر چھت کے رات نہ گزارنے دینا۔ اس کے کوئی ٹھیکیدار یاکمپنی مشکل سے تیار ہوگی۔

لیکن کوئی بات نہیں اس مسئلے کا حل ہم بتا سکتے ہیں یہ تو سب کو پتہ ہے کہ جب کسی وژن کی حکومت ہوتی ہے تو ملک میں جاندار تو کیا بے جان چیزیں بھی وژن دار ہو جاتی ہیں چنانچہ آج بھی ایسا آدمی بمشکل ہوگا جو پٹائی نہ کرتا ہویعنی انصاف دار اور وژن دار نہ ہو اور ہر قربانی کے لیے یعنی خون کا آخری قطرہ بہانے کا رواج بھی اپنے ہاں کافی قوی ہے اور پہلی ترجیح کی پیداوار بھی اچھی خاصی اطمینان بخش ہے یعنی راوی ہر طرف وژن لکھ رہا ہے اور کارکن اپنے وژن کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو بھی تیار ہیں۔

ایسے میں اگر ان کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ کسی کو بھی کھلے آسمان تلے یعنی بغیر چھت کے نہ سونے دیا جائے تو سارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے جہاں کوئی بغیر چھت کے سویا ہوا ملے اسے بزور یابرضا کھینچ کر کسی چھت تلے کردیاجائے۔ اور چھت کی تو کوئی مقررہ شکل ہے ہی نہیں بس چھت ہونا چاہیے اور اس کے نیچے سونے والوں کوکھینچنا چاہیے۔

داغ وارستہ کو ہم آج ترے کوچے سے

اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کچھ دنوں کی محنت چاہیے پھر خود بخود لوگ بغیر چھت کے سونے سے باز آجائیں گے یا گرمیاں گزر جائیں گی۔

البتہ ان لوگوں کا مسئلہ کچھ ٹیڑھا ہے جو "شب گرد" ہوتے ہیں یعنی کسی کام یا ضرورت کے لیے یہاں وہاں رات کو بھی جاگتے ہیں کام یا سفر کرتے ہیں اور رات کسی چھت تلے نہیں گزارتے لیکن ہمیں اپنے وژن پر بھروسہ ہے کہ اس کا بھی کوئی حل نکال لے گا ورنہ آخری آپشن (PTI) کا اردو ترجمہ تو کہیں گیا ہی نہیں اور پی ٹی آئی انسٹرکٹر بھی کم نہیں ہے وہ تو ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ تبدیلی کی برکت سے آئی ایم ایف کی نیک تمناؤں سے اور سیاست کے مقدس سائے سے ہر چیز کی فراوانی اور بہتات ہے۔

ویسے ہم نے اڑتی سی ایک خبر زبانی طیورکی یہ بھی سنی ہے کہ جب یہ دوٹارگٹ پورے ہو جائیں گے یعنی کوئی بھوکا نہ سوئے اور بغیر چھت کے رات نہ گزارے تو پھر تیسرے ٹارگٹ کا مرحلہ آئے گا۔ اور وہ ہے کوئی کچھ بھی نہ کرے تب وژن ہی وژن لاگو ہو جائے گا۔

کوئی بھوکا نہ سوئے کوئی بغیر چھت کے رات نہ گزارے اور کوئی کچھ بھی نہ کرے اس طرح ریاست مدینہ پیراڈئنر لاسٹ ہو جائے گا۔

بہشت آن جاکہ آزارے نہ باشد

کسے رابا کسے کارے نہ باشد

آں محترمہ جو کوئی طورو ہیں اور کسی پناہ گاہ کی جہاں پناہ ہے ان کے یہاں سے ہمارے سارے خدشے دور ہو گئے جو مستقل کے بارے میں تھے، انکم سپورٹ کارڈ اینڈ کارڈ، ہشاش بشاش وغیرہ پروگراموں کے لیے تو ہم کوالی فائی نہ کر سکے کہ ہمارے پاس مطلوبہ قابلیت نہیں تھی لیکن اس پناہ گاہ کا معاملہ کچھ آسان لگتا ہے۔

دل کے آئینے میں ہے تصویر یار

جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

بس ہاتھ نہ سہی پاؤں بڑھائے اورکھا لیا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran