محترمہ شیریں مزاری کے ساتھ یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس لیے ہوا اورکس نے کیا؟ یہ سوالات چونکہ ہمارے نصاب سے باہر ہیں، ان اونچے مقامات تک نہ ہماری رسائی ہے، نہ شنوائی، اگر بھولے بھٹکے گئے بھی تو ہماری "سوچ" کے پرجل جائیں گے یاکٹ کر گر جائیں گے بلکہ سرپر پیرکچھ بھی سلامت رہنے کا امکان نہیں ہے۔
ہم توکنارے کنارے چل کر "سیپیاں " جمع کرنے اوران سے کھیلنے اوربہلنے والے لوگ ہیں اوراس مرتبہ جو "سیپی" ہمارے ہاتھ لگی ہے، وہ ایک لفظ "مزاری" ہے، اتنا توہمیں معلوم ہے کہ مزاری بلوچوں یا سرائیکیوں کا ایک معززومحترم قبیلہ ہے جس میں شیرباز مزاری، بلخ شیر مزاری، سردار عاشق مزاری اوراب محترمہ شیریں مزاری جسے ناموراورمحترم لوگ ہوئے ہیں۔
لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس لفظ کا اوریجن یا ماخذ کس زبان کا ہے، اگر بلوچی یاسرائیکی زبان کا لفظ ہے توہمیں اس کے مطلب اور ماخذ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے لیکن اگر یہ اردو، فارسی، ترکی یا عربی کاہے توپھرسوچنا پڑے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک مرتبہ ہم نے وزیروں اوروزیرستان کے بارے میں سوچا تھاکہ آخر وزیرستان سے زیادہ وزیرتو پاکستان یا اسلام آباد میں ہیں تو اسے کیوں وزیرستان نہیں کہا جاتا۔ لاحق اورسابق بلکہ جو امید سے ہیں ان سب کوملاکربات کی جائے تو "وزیرستان" کانام پاکستان کاحق بنتاہے اورنام کے سلسلے میں ثابت ہوچکاہے کہ کسی پرکچھ بھی نام رکھا جاسکتاہے، جب ریاست مدینہ کوسعودی عرب سے لاکر رکھا جاسکتا ہے تویہ بغل میں واقع "وزیرستان" کیوں نہیں لایا جاسکتا۔
خیروزیروں کو چھوڑ دیجیے کہ آج کل ان بیچاروں کی کوئی ویلیو ہی نہیں رہی ہے کہ معاونین خصوصی کادرجہ بھی ان سے اونچا ہوگیاہے۔ بات یہاں مزاریوں کی کررہے ہیں اوریہ بھی صرف زبان اورالفاظ کی حدتک ہے کہ یہ لفظ سن کر"ہمارا ٹٹوئے تحقیق" پرجوش ہوگیا ہے کیونکہ ایک پاکستانی اور پشتون ہوتے ہوئے ہم بھی "مزاری " ہی ہیں کیونکہ پاکستان میں زندوں سے زیادہ مزارچلتے اور پوجے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں، سب کے پاس ایک بھی نہیں دودو مزار ہیں اوروہ ان کے مزاری یا مجاور ہیں۔ بات الفاظ کی چلی ہے تولفظ مجاورپربھی غورکرناپڑے گا کہ اس کامادہ کہیں مزار، مزارو تو نہیں حالاں کہ مجاورکارشتہ جاروب کشی سے بھی ہے۔
افغانستان کے ایک معروف عالم اور لکھاری ہیں، ان کانام"مجاوراحمد زیار" ہے لیکن انگریزی یا رومن والے انھیں مزاور احمد زیاربھی کہتے ہیں کہ تخلص میں بھی "زیار" یعنی زیارت کامفہوم جھلکتاہے۔
یہ "مزاروں "کامسئلہ بھی عجیب پیچیدہ مسئلہ ہے۔ دولت کے لیے، شادی کے لیے، اولاد کے لیے، آنکھوں کے لیے، جلدی امراض کے لیے، بادی دردوں کے لیے، کھانسی زکام کے لیے، الگ الگ مزار مخصوص ہیں۔ ہمارے علاقے میں ایک مزارزخموں اورپھوڑوں کے علاج کے لیے مشہورہے۔ مطلب یہ کہ ہرلحاظ سے دیکھاجائے توپاکستان کے سارے لوگ کسی نہ کسی شکل میں "مزار" ہی ہیں، اس لیے اس نام پر ہرکسی کااتنا ہی حق ہے جتنا مجاور کہلانے والوں کا ہے۔ کونسی پارٹی ہے جو مجاورنہیں ہے، ویسے کسی زندہ کومزار بننے میں دیر کیالگتی ہے۔ آج مرے۔ کل مزارشریف۔ یہ جوپارٹیوں اور مجاوروں کے پاس "مزار" ہیں، یہ بھی توکبھی زندہ ہواکرتے تھے اورپھر مزارشریف ہوگئے۔
مطلب یہ کہ بحث یہاں نہ سیاست کی ہے نہ مذہب کی اورنہ ہی مشہور زمانہ رسوائے جہاں، شرمندہ زمان جمہوریت کی ہے، بات صرف ایک لفظ یانام کی ہے اورجہاں تک نام کاتعلق ہے اس کے لیے کوئی بھی جواز ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے آپ کوابدالی کہتے تھے۔
ہم نے وجہ تسمیہ پوچھی تو بولا، میرے ایک استاد کانام ابدالی تھا، مجھے پسند آیا اس لیے رکھ لیا۔ پاکستان میں ڈھیروں کے حساب سے ابدالی، غزنوی، غوری ملیں گے، اسی طرح شیرازی، اصفہانی، کاظمی، قرشی وغیرہ ملیں گے۔ ایسے سابقوں والوں سے پوچھیں، تو پھر کوئی بھی پاکستانی نظر نہیں آئے گابلکہ ہندی بھی نہیں ہوگا۔ ہزارہ کے ایک بزرگ کسان سے ہماری ملاقات ہوئی جوچاچا پشاور کے نام سے مشہورتھے۔ اس نے بتایاکہ پشاورتو کیا وہ کبھی اپنے گاؤں سے ہری پور تک بھی نہیں گئے لیکن بچپن میں ان کے والد ان کے لیے پشاوری چپل لائے تھے جس سے وہ پشاوری ہوگئے۔
خلاصہ کلام یہ کہ "مزاری " بھی ایک لفظ ہے جو قبیلے یا ذات کو ظاہر کرتاہے، میرا کہنا بس یہ ہے "مزاری" کوخصوصی کے بجائے عمومی کی حیثیت دینی چاہیے، اگرسارے پاکستانیوں کا نہیں توکم ازکم ان لوگوں کاتو اس نام پرحق جوکسی نہ کسی مزار کے حلقہ بگوش ہیں۔ بلکہ ہم تو ان تمام لوگوں کو بھی اس میں شامل کریں گے بلکہ زیادہ حق انھی کاہے جو بے نظیرانکم سپورٹ سے متعلق ہیں کہ سب کے سب مزارہی کادیاتوکھاتے ہیں۔