اب ہم اپنے اصل موضوع پرآتے ہیں یعنی لفظ جن کا سفر کیسے اور کہاں سے شروع ہوا اور اس کا ماخذ کیا ہے، ویسے بھی جن تواہم کے مارے معاشروں میں دولت اور عزت کمانے کے لیے ایک بیسٹ سیلر چیز ہے، خواتین پر تو اکثر یہ آگ کی بنی ہوئی مخلوق ہے، کبھی دکھائی دیتی، کبھی غائب رہتی بلکہ ہندی اصطلاح کے مطابق اچھا دھاری مخلوق یعنی جب چاہے کوئی بھی شکل کرسکتے ہیں۔
قصے کہانیوں میں تو ان کے اورانسانوں کے درمیان جنسی تعلقات بھی ہوجاتے ہیں اوران سے اولادیں بھی پیداہوتی ہیں اوربھی بہت کچھ کہا اورلکھا گیاہے لیکن ہم لفظ "جن" کا لسانی تجزیہ کرتے ہیں، عربی لغات میں یہ لفظ"ج ن ن" ہے۔
علمائے لسانیات جانتے ہیں کہ عربی زبان میں جب کسی آریائی لفظ کواپنایا جاتا ہے تواس کو سہ حرفی بنانے کے لیے یا تو تشدید سے کام لے کر معرب کیاجاتا ہے اوریا عربی کے مخصوص حروف تہجی جو بہت باریک اوردوآوازی ہیں اوردوسری زبانوں میں موجود نہیں، اسے لگایاجاتا۔ خالص عربی مخرج سے اداہونے والے یہ الفاظ ہیں۔ ت، ح، ص، ض، ط، ظ اورع لیکن پہلاطریقہ استعمال کرکے جن کو (جن ن ن) کردیاگیا۔ تاریخی طور پر یہ لفظ اس قدیم زمانے کا ہے جب سامی اورآریائی گروپ تقسیم نہیں ہوئے تھے۔
سنسکرت میں "ج ن" سے جنم، جیون، جینا، جیونی، وغیرہ، ہندی عقیدے کے مطابق جب انسان مرتاہے، اگر وہ اپنی زندگی میں نیک عمل کرتا رہا ہے تو اس کی آتما(روح) مکتی پاکر پرم آتما سے مل جاتی ہے لیکن اگر مرنے والا گناہ گار ہو تو اس کی آتما باربار پنرجنم لیتی ہے جب تک کہ وہ پاک ہوکرپرم آتما سے ملنے کے قابل نہ ہوجائے، اسے مکتی یانجات نہیں ملتی۔
عرب علمائے لغت نے لفظ جن کے معنی کیے ہیں، پوشیدہ، چھپاہوا، نظر سے اوجھل۔ امام راغب فرماتے ہیں، اوجھل کے معنی صرف نظروں ہی سے اوجھل کے نہیں ہیں بلکہ حواس سے اوجھل ہونا بھی اس میں شامل ہے، چنانچہ جنون، مجنون وغیرہ بھی اسی لفظ جن سے ہیں، اسی لیے لوگ پاگلوں یا مرگی وہسٹریا کے مریضوں کو نام نہاد جن نکالنے والے عاملوں وغیرہ کے پاس لے جاتے رہتے ہیں۔
تاج العروس اورمحیط میں بھی یہی معنی لکھے ہیں، اوجھل یاپوشیدہ۔ لیکن اس اوجھل یاپوشیدہ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ وہ چیز ہوتی ضرور ہے، اس کا وجود تسلیم شدہ ہوتا ہے، اگر کوئی چیز سرے سے وجود ہی نہ رکھتی ہو تو اس کے لیے جن کالفظ استعمال نہیں ہوتا، اردو، فارسی، سنسکرت، پشتو اورکئی زبانوں میں اس لفظ سے "جان" بھی بنتا ہے، انسانی جان یا روح یا زندگی موجود توہوتی ہے لیکن حواس سے اوجھل بھی رہتی ہے، قرآن عظیم الشان میں سانپ کو بھی "جان" کہاگیاہے، حالاں کہ اس کااپنانوعی نام "حبہ" ہے لیکن جان میں پوشیدگی اورکبھی کبھار نظر آنے کا مفہوم ہے۔ پ
شتومیں ایک لفظ ہے جینئی، یہ اس لڑکی کوکہاجاتاہے جو بچپن سے نکل کرجوانی کے مرحلے میں داخل ہوجاتی ہے، اسے "پہ ستر" بھی کہا جاتا ہے، پھر اسے کوئی غیر آدمی نہیں دیکھ سکتا سوائے چند خاص رشتے داروں کے، اس میں ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ عورت چاہے سوسال کی بھی ہوجائے اوراس کی شادی نہ ہو تو وہ جنتی کہلاتی ہے، عورت نہیں۔
انگریزی الفاظ جینز، جینٹک، جینوم وغیرہ میں بھی یہی "پوشیدگی" ہے جو "عدم موجودگی" نہیں ہوتی لیکن عام نظروں سے اوجھل بھی ہوتی۔ اسی جن لفظ سے جنگل بھی ہے جہاں نیم تاریکی ہوتی ہے، سب کچھ صاف دکھائی نہیں دیتا اوریہی مفہوم "باغ" میں بھی ملتا ہے۔ باغ کی زمین بھی گھاس پھوس یاسایوں سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے۔
کل ملاکر اکثر زبانوں میں اگرجن کامادہ تلاش کیاجائے تو مفہوم وہی نکلے گا، اوجھل پوشیدہ، کبھی کبھار دکھائی دینے والی چیز، یہ وحشی، جنگلی اورآبادیوں سے دوررہنے والے خانہ بدوشوں کااستعارہ بھی ہے جب کہ مقام انس اورانسان ایک اجتماعی معاشرے میں باہم مل جل کر رہنے والوں کانام ہے۔