اس سب سے بڑے مجرم کی بات چلی ہے جو پاکستان جیسے پاکیزہ، معصوم ملک بلکہ ریاست مدینہ میں "جینے" کا مجرم ہے اور پچھلے پچھترسال سے قید بامشقت کاٹ رہاہے، معلوم نہیں اسے کتنی لمبی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے جو پھانسی سے پہلے اسے بھگتنا ہوگی۔
"ہینگ انٹل ڈیتھ" تو طے ہے۔
چوں کہ مقدمے کی فائل"پس وپیش" ہوچکی ہے، اس لیے ہم یہ بتانے سے قاصرہیں کہ اس نے کس جرم یاکن کن جرائم کاارتکاب کیاہوا ہے، کسی دن موقع ملا، جان کی امان پائی تواپنے نئے نویلے برائے اطلاعات سے پوچھیں گے جو بیرسٹر بھی ہیں اورصاحب سیف وقلم بھی شاید ان کو اس گمشدہ فائل یااس کی تفصیلات کاپتہ ہو، سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ خود مجرم کوبھی پتہ نہیں ہے کہ اس نے کیاجرم یاکیاکیا جرائم کیے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ عدم استعمال سے اس کادماغ سکڑتے سکڑتے معدوم ہوچکاہے اوراس کی اوپر والی ہانڈی میں اس قسم کی کوئی "آلودگی" نہیں پائی جاتی۔ پوچھئیے توصرف یہی بتاتاہے کہ
اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دو
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مرجانے دو
باقی توسب کچھ اس قصے میں پرانا ہی چل رہاہے، مجرم بھی وہی ہے، سزادینے والے بھی وہی ہیں لیکن اس "قیدی" کاذکرکرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ آج کل اس کی قید بامشقت کچھ اورسخت ہوگئی ہے، جیل کاعملہ اسے اب مشقت لینے کے ساتھ ساتھ کوڑے بھی مارنے لگاہے، ٹھڈے بھی اورمکا، لات بھی، اسے "چکی بند" کرکے بھوک پیاس کی سزابھی دی جاتی ہے اورچھ فٹ کے اس کم بخت مارے کالا نعام کوچارفٹ کے کمرے یابلیک ہول میں بھی سونا پڑرہاہے۔
زندگی اپنی اسی طورجوگزرے غالب
ہم بھی کیا یادکریں گے کہ خدا رکھتے تھے
سب سے نئی، بڑی اورالگ بات یہ ہوئی کہ جلادوں اورکوڑے ماروں کی تعداد روزبروزبڑھتی جارہی ہے اورہرایک کواس پر مشق ستم کرنے کی کھلی چھٹی ہے اورہمیں یہی پتہ لگانا ہے کہ اس "تبدیلی" کی وجہ کیا ہے، کیااس نے قید ہی قید میں کوئی اورجرم کرڈالاہے یا پرانے فیصلے میں جس کی فائل پس وپیش ہے، یہ لکھا تھاکہ اس کی سزا بتدریج بڑھائی جائے۔
اپنے اس تحقیقی پروجیکٹ کاذکرجب ہم نے قہرخداوندی چشم گل چشم کے منجھلے بیٹے قہرالٰہی سے کیا، جس کے پاس جرائم کے تمام اسکولوں اورنصابوں کاتجربہ ہے، اب تووہ خیر اپنی لیاقت اورکوالی فیکیشن کی بنیاد پرلیڈر بن چکا ہے لیکن اپنی تعلیم اورتربیت کے دوران وہ ہرقسم کے اسکولوں میں زیرتعلیم رہا ہے، اپنے گائوں کی پولیس چوکی، بڑے تھانے کی حوالات، تحصیل کی جوڈیشل حوالات، ڈسٹرکٹ جیلوں اورسینٹرل جیل جیسی یونیورسٹی کا ڈگری ہولڈرہے اوران مقامات کے سارے نصابات سے واقف ہے، اس نے تواپنے علم اورتجربے کی روشنی میں بتایاکہ جس مجرم یاقیدی کی آپ بات کررہے ہیں، وہ چوں کہ پرانا گھاگ قیدی اورمجرم ہے، اس لیے اس کی سزائیں، جیلیں اور سزا دینے والے بدلتے رہے کیوں کہ "عادی" ہونے پرہرسزا بے اثریاکم اثرہوجاتی ہے، اس لیے "تبدیلی"مسلسل جاری رکھی جائے۔
کبھی پھول سے نکل کے کبھی چاندی میں ڈھل کے
ترا حسن گھیرتاہے مجھے رخ بدل بدل کے
اس نے اپنے تجربے کی بنیادپر بتایا کہ بعض اوقات مجرم اتنا عادی ہوجاتاہے کہ جب اسے کوڑے مارنے کے لیے لے جایا جاتاہے اوراسے کوڑے نہ مارے جائیں تو اس "نہ مارنے" سے اسے مارنے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، اس لیے سزادینے والے ماہرین نئے نئے طریقے نکال کر اسے اذیت سے دوچار کرتے ہیں۔
میں نظرکو روک بھی لوں، میں خیال کاکروں کیا
میرے دل میں آچکاہے کوئی راستہ بدل کے
قہرالٰہی کااپنا تجربہ اپنی جگہ، لیکن ہم نے جب تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو ایک اوربات کا پتہ چلااوریہ والی سوات کے والد باچاصاحب مرحوم سے منسوب ہے، کہتے ہیں کہ سیدوشریف سے دورکسی کوہستانی ولایت میں ایک شخص نے دوسرے کوقتل کردیا، وہاں کے حاکم نے والی صاحب کواس زمانے کے ہینڈل والے ٹیلی فون پراطلاع دی تو والی صاحب نے کہا کہ لاش کوقاتل کے اوپر لادکر اورپہرے دار اس کے ساتھ کرکے یہاں بھیجوا دو۔ حاکم نے ایسا ہی کیالیکن تین چاردن پیدل سفرکرکے جب یہ لوگ سیدو شریف پہنچے تو والی صاحب نے صاف انکار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے تو ایسا کوئی حکم نہیں دیا، مجرم اورلاش کو واپس حاکم کے پاس لے جائو، قافلہ پھر واپس چل پڑا۔
اب لاش پرانی ہوکر پھول گئی اور پھرگلنا سڑنا شروع ہو اوراذیت نک بدبو دینے لگی تھی۔ یہ لوگ جیسے ہی اپنے حاکم کے پاس پہنچے تو اس نے کہا کہ ابھی ابھی والی صاحب کا حکم آیا ہے کہ لاش اورمجرم کو فوراً سیدوشریف لایاجائے۔ وہ پھر والی صاحب کے پاس پیش ہونے کے لیے چل دییے۔ قاتل کی پیٹھ پر بدبودار لاش لدی ہوئی تھی، ایک مقام پر اس کی برداشت جواب دے گئی اورلاش سمیت ایک پہاڑ سے کود کرموت کے ذریعے نجات پالی، کہیں ہمارے مجرم کے ساتھ ایسا تو نہیں کیاجارہاہے؟