پہلے ایک مزیدار ساشعرسنیے
کثرت جذبات سے چشم شوق کس مشکل میں ہے
اتنی شمعیں کب تھیں جتنی روشنی محفل میں ہے
شاعرکامعاملہ توکچھ اورہے لیکن محفل میں شمعوں سے روشنی زیادہ ہوجائے یاشمعوں کے باوجود روشنی نہ ہوتو سوچنا پڑتاہے اورہم اس دوسری صورت حال کاشکار ہیں، شمعیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہر جگہ شمع ہی شمع نظر آتی ہے لیکن روشنی نام کو بھی نہیں، کسی بھی چیز کی قلت اور کثرت خطرناک ہوتی ہے لیکن ایک پشتو کہاوت ہے کہ
غریبی برداشت کرنا آسان
لیکن دولت برداشت کرنا مشکل ہے
کثرت کسی بھی شکل میں کسی بھی چیزکی کسی بھی حالت میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہے، زیادہ کھانا، زیادہ پینا، زیادہ چلنا، زیادہ سونا، زیادہ بولنا یہاں تک کہ زیادہ دولت بھی کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلاکرہی دیتی ہے۔
آپ نے اکثرسنا یا پڑھا ہوگا، کہ آج کل تو قحط الرجال ہے اوریہ تب بولاجاتاہے جب کسی جگہ کثرت الرجال ہوجاتاہے اوریہی کثرت الرجال کی بڑی نشانی ہے، کہ لوگ قحط الرجال کارونا رونے لگتے ہیں گویامعاملہ الٹادکھائی دیتاہے، کیوں کہ تمام دانا دانشوروں کوملک میں صرف ایک رجل دکھائی دیتاہے جو وہ خود ہوتاہے، اپنے علاوہ اسے کہیں پرکوئی بھی رجل دکھائی نہیں دیتاہے۔
بات کوسمجھنے کے لیے ایک ادبی لطیفہ سنیے، ایک شاعر نے ایک حکیم صاحب سے کہاجو شاعر بھی تھے اور آنکھوں کے معالج بھی۔ کہ آپ خود ماہرچشم ہیں آپ پہلے اپنی آنکھوں کاعلاج کیوں نہیں کرتے، حکیم شاعرنے کہا میری آنکھیں تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، دوسرے شاعر نے کہا یہی تو آپ کی بیماری یا غلط فہمی ہے حالانکہ آپ کی بینائی بالکل ختم ہوچکی ہے کیوں کہ آج کل آپ کوپورے حیدر آباد دکن میں اور کوئی شاعر دکھائی نہیں دیتا۔
یہی کثرت الرجال یابہتات الرجال کے مریضوں کامسئلہ ہوتاہے جسے فارسی میں۔ ہم چو کہ دیگرے نیست کہاجاتاہے یعنی میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔
ہمارے دوست مرحوم ایوب صابر نے ایک مرتبہ ایک اورشاعرکے بارے میں بتایاکہ جب ہم دونوں یکجا ہوتے ہیں تو دونوں اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں کہ پوری پشتو شاعری میں ایک تو آپ ہیں اورایک یہ ناچیزہے اورمجھے یقین ہے کہ جب میں اس سے جداہوتاہوں تو وہ بھی میری ہی طرح دل میں کہہ رہاہوگا کہ تو بھی کیاہے؟ صرف میں ہی میں ہوں۔
لیکن پاکستان میں لانچ ہونے والی کثرت الرجال کاایک اور بڑا خطرناک پہلویہ ہے کہ اس کثرت الرجال میں برکت بہت ہوگئی، صرف ایک آدمی میں چارپانچ اور رجال بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر وہ لیڈر ہے تو لیڈری کے علاوہ اس کے اندر ایک دینی عالم، ایک دانشور، ایک ادیب اورایک فلسفی بھی بیٹھا انتظار کررہاہوتاہے کہ کب موقع ملے اورمیں انٹری دوں۔ دینی علماء کے اندر بھی اس سے زیادہ کثرت الرجال ہوتاہے۔
مطلب یہ کہ پاکستان میں آج کل کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو اپنے اندر اکیلا ہو ہرایک کے اندر کئی کئی ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے ہرمعاملے پر اتھارٹی ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں ہرپاکستانی اپنے آپ میں ایک وزیرہوتاہے، وزیروں بلکہ آج کل تو مشیروں اور معاونوں کو بھی شمار کرلیجیے ایساکون ہے جو ہرہروزارت کے لیے ہارٹ فیورٹ ہوتاہے۔
آج اگر وہ جنگلات پر اتھارٹی ہے توکل کوچوبیس گھنٹے کے نوٹس پر ماہرتعلیم، ماہرصحت، ماہرتعمیرات، ماہرجزئیات سب کچھ ہوسکتا ہے اورپہلے سے بھی زیادہ کارنامے کرسکتاہے۔ لیکن اب یہ مرض مزید پھیلتا ہوا اورپھیلتا ہوا نیچے کی طرف بھی سرایت کررہاہے۔
ہم نے آج تک ایساکوئی نہیں دیکھاہے جو پاکستانی ہو اورسب کچھ پر اتھارٹی نہ ہو۔ اس لحاظ سے اگرمردم شماری یا رجل شماری کریں توپاکستان کی آبادی کو کم سے کم پچھترکروڑ سمجھنا چاہیے، کم ازکم تین توہرپاکستانی کے اندر ضرورہوتے ہیں، چاہے وہ خود ہو یا نہ ہو۔ ویسے ہم فضول میں آپ کو تنگ کررہے ہیں کیوں کہ سامنے سب کچھ نظر آرہا ہے کہ کثرت الرجال یابہتات الرجال کاملک میں کیسا عالم ہے، جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے، اسے کہتے ہیں اصل قحط الرجال۔ جب رجال اتنے بڑھ جائیں کہ قحط پڑجائے۔
اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی