ہمارے ایک بزرگ جوگرگ باراں دیدہ کے بعد اب باقاعدہ پروٹوکول کے ساتھ "گزرگ" ہوکر زیرزمین پہنچ چکے ہیں اکثر بڑے دلچسپ اقوال زریں ایجاد کرتے تھے۔
ایک مرتبہ انھوں نے صحافت کے بارے میں اپنے ملفوظات ارشاد کرتے ہوئے کہا، جس طرح سمندری دنیاکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ جس شکل وشیپ کی کوئی مخلوق تصور کرسکتے ہیں ویسی ہی مخلوق آپ کو سمندرمیں مل جائے گی اسی طرح آپ جس شکل وشیپ اورنمونے کاصحافی تصورکرسکتے ہیں ویسا ہی صحافی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شہرگاؤں یاگلی میں مل سکتا ہے، کوشش اورآزمائش شرط ہے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب صحافت صرف صحافت ہوتی تھی اورصحافت کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہوتی تھی یعنی صحافت ابھی نہ میڈ، میڈیا تھی اورنہ ہی اسے "انڈسٹری"کادرجہ ملاتھا اب تو ماشاء اللہ انڈسٹری ہے۔ ویسے یہ زمانہ ہی انڈسٹرلائزیشن کا ہے، ایسا کام کہیں بہت کم ہی جچا ہوگا جو ہو تو ہو اورانڈسٹری نہ ہو۔
ہمارے گاؤں کاایک شخص پینتیس سال پہلے عدم پتہ ہوگیا تھااس کے اعمال ایسے تھے کہ کسی نے زیادہ ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی اورسمجھ گئے کہ کسی نے اسے زیرزمین دانے کی طرح بویاہوگا کہ ایسے دانے اکثر ایسے ہی انجام تک پہنچتے ہیں لیکن پھر اچانک پورے پینتیس سال بعد پتہ چلا کہ کسی نے اسے بویا نہیں تھا بلکہ وہ خود لوگوں کو بونے کی انڈسٹری میں آگیا تھا۔
راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے قبرستان میں ٹھیکیدار بن گیا تھا اورایک پورا عملہ رکھ کر کفن دفن کا کاروبار کرنے لگا تھا لیکن پھرنہ جانے کس"زودپیشمان " کو خیال آگیا کہ جو کام پینتیس سال پہلے ادھورا چھوڑ گیاتھا اسے اب پوراہوناچاہیے، دیرآئیددرست آئید۔ اور اسے قبرستان ہی میں آباد اس کے لگژری کوارٹرمیں کیفرکردار تک پہنچایاتھا تب ہمیں اورگاؤں میں اس کے رشتے داروں کوبھی پتہ چلا کہ مردہ زندہ ہوگیا اور پینتیس سال زندہ رہ کر پھر مردہ ہوگیا۔
ہم موقع واردات پر اس کے رشتہ داروں کے ساتھ گئے تو دیکھا کہ قبرستان میں پتھر کی سلوں کا، اینٹوں کااورطرح طرح کے اوزاروں کابہت بڑا اسٹاک پڑا ہواہے یہ کالے پتھر کے سل پہاڑوں سے لے جاکر وہاں اسٹاک کیے ہوئے تھے، بعد میں انھیں اس کے رشتہ داروں نے بیچا تو پانچ لاکھ کاخام مال تھا گویا اس نے قبرستان کو بھی انڈسٹری بنالیاتھا۔
یہ ساری کتھاسنانے کامطلب یہ تھا کہ بنانے والے کسی بھی چیزکو انڈسٹری بناسکتے ہیں یاوہ ایک بادشاہ کاخسر بھی تھا جس نے دریا کی لہروں کو انڈسٹری بنالیاتھا صرف دینی انڈسٹری کے مختلف شعبہ جات کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ کم سے کم ڈیڑھ دوسو انڈسٹریاں تو اس گروپ آف انڈسٹریزمیں یقینا ہوں گی۔
اب اپنے اصل موضوع، سمندری دنیا، سوری صحافتی انڈسٹری کی بات کرتے ہیں، دھکیلے گئے تو جن دنوں ہم صحافت کی اس دنیا میں۔ ہم نے دیکھا کہ پڑھے جانے والے اخبار تو یہاں گنتی کے ہیں۔
لیکن صحافیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ کوئی بھی اینٹ روڑا اٹھانے پر دس بارہ صحافی نکل آتے تھے، ساتھ ہی دوچار ڈیلی اورہفت روزہ اخبار بھی ان اخباروں میں ون مین آرمی کا سسٹم رائج تھا، ایک ہی شخص اخبار کامالک، ایڈیٹر، منیجر، کاتب، پرنٹر، چپڑاسی، سب کچھ ہوتا ہے اورہرپرچہ نہایت ہی کثیرالاشاعت ہوتا تھا، پورے پانچ پرچے چھپتے تھے، ایک محکمہ اطلاعات کے لیے، ایک اشتہاری پارٹی کے لیے، ایک دفتر کے لیے، ایک فائل کے لیے اور ایک کسی ہنگامی ضرورت کے لیے۔ ان کثیرالاشاعت (یہ ان پر لکھا ہوتاتھا)اخبارات کی اشاعت کاایک باقاعدہ پروسیجر ہوتاتھا۔
اس کے مالکان یاایڈیٹران اکثر سرکاری دفاتر اورخاص طورپر محکمہ اطلاعات کے دفاترمیں پائے جاتے تھے وہاں ان سب کے اپنے اپنے مہربان ہوتے جن کے ذریعے اکثر وہ "کام کے بندوں " کو شکار کرکے صحافی کے ساتھ نمک منڈی میں لنچ کرانے کابندوبست کرتے، یوں کچھ گفتنی ناگفتنی جگاڑ کرکے وہ اگلے دن کے لیے سرکاری اشتہارحاصل کرلیتے تھے۔
اگلے دن مالک پلس ایڈیٹرپلس پبلشرپلس مینجرپلس چارپانچ اخبار سامنے رکھ کر قینچی ہاتھ میں لے لیتا تھا اوران بڑے اخباروں سے تراشے کاٹ کر کاتب کے ٹرے میں ڈال دیتاتھا، کاتب جو خود بھی تین چار ان ون ہوتا ان سب تراشوں کی کوٹنگ کرکے گزشتہ روزکاپرچہ تیار کرتاتھا۔ صبح پرچہ چھپ جاتا تو مالک پلس ایڈیٹرپلس منیجرپلس رپورٹراسے بغل میں داب کر پھر دفاتر کی سیاست کو نکل جاتاتھا۔
پھر بہار آئی وہی دفتر نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خارمغیلاں ہوں گے
میں نے ان صحافیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اگر لکھنے لگوں تو کم ازکم اتنے اونٹ تو باربرداری کے لیے درکارہونگے جتنے وہ اخبار تھے لیکن وہ سارا سیکھا ہمارے کچھ بھی کام نہیں آیا چنانچہ ہم آج بھی آؤٹ سائیڈر یعنی صرف کالم نگار ہیں۔ اخبار نویس نہیں بن پائے۔