گل ببوگاؤں کی واحد دایہ تھی، اس لیے ہروقت مصروف رہتی، ابھی ایک زچگی چل رہی ہوتی کہ دوسری کابلاواآجاتا، ایک دن اس کی ایک پرانی سہیلی نے شکوہ کیا، گل ببو!آج کل بالکل دکھائی نہیں دے رہی ہو، کیا بات ہے۔ گل ببو نے کہا، بہن کیا بتاؤں، اتناکام ہے، اتنا کام ہے کہ کسی کے ساتھ بھاگنے تک کی فرصت نہیں۔
وہ تواچھاہواکہ ہم گل ببو نہیں ہیں ورنہ ہمارا بھی زچگیوں کی کثرت سے براحال ہوتا، ابھی ہم ایک "پہلی ترجیح" کو نہلارہے ہوتے ہیں کہ دوسری کی کلکاری سنائی دیتی ہے۔ وہ ایک پشتو ٹپہ ہے۔
دپلارزا نگومے زانگولہ
ناساپہ غگ شوچہ نیکہ دے پیداشونہ
یعنی میں ابھی اپنے باپ کاجھولاجھلارہاتھاکہ اوپر سے آوازآئی، مبارک ہوتیرادادا بھی پیداہوگیاہے اورپہلی ترجیحات کاسلسلہ توہوبہوایساہے کہ ابھی ہم پہلی ترجیح نمبرایک، کونہلارہے ہوتے ہیں کہ"پہلی ترجیح"کاغلغلہ ہوجاتاہے، حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تیزرفتاری سے پہلی ترجیحات جنم دینے والی اس "زچہ" کااورکام ہے بھی یا نہیں۔
کلاس میں ایک استاد اپنے شاگردوں کوکثرت آبادی پر لیکچر دیتے ہوئے کہہ رہاتھا، تم کو پتہ ہے کہ پاکستان میں ایک منٹ میں تین بچے پیداہوتے ہیں، تمہارے خیال میں اس مسلے کاحل کیاہے؟ ایک لڑکے نے ہاتھ ہلایاتو استاد نے حل پوچھا۔ لڑکا بولا، سب سے پہلے اس خاتون کو تلاش کیا جائے جو ایک منٹ میں تین بچے پیدا کرتی ہے۔
گل ببو والی پرابلم ہماری بھی ہے، جب بھی اخباراٹھاتے ہیں، زچگیاں ہی زچگیاں اور پہلی ترجیحات کی ولادت قطار اندر قطارکھڑی ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری پرابلم گل ببو اوراس کلاس والے لڑکے سے تھوڑی کم ہے کیوں کہ ہمیں وہ عورت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں جو ایک منٹ میں تین بچے یا ترجیحات جنم دیتی ہے البتہ یہ پرابلم بہت زیادہ ہوگئی ہے کہ وہ "زچے"بہت ہوگئے ہیں جن کوسوائے ترجیحات بلکہ پہلی ترجیحات پیداکرنے کے کوئی اورکام آتا نہیں ہے، ارے خدا کے بندوں کچھ کام بھی کرلیا کرو، پڑوسیوں سے گپ شپ کرلیا کرو یا پھر لڑائیاں کرو، جو بچے پیدا کرچکے ہو، ان کی طرف دھیان دو، یہ کیاکہ صبح بچہ شام بچہ۔۔ تیراتو ہے کام بچہ۔
کبھی کبھی توہمیں ایسا لگتاہے جیسے پاکستان ایک بڑا سا "میٹرنٹی ہوم"ہو اوربے شماروزیر، مشیر، معاون پہلی ترجیحات کے بچے پیداکرر ہے ہوں، ہرطرف ہاہاکارہو، بچوں کی یلغار ہواورایک مچھلی بازارہو۔ ہم نے جب ایک منشی سے حساب لگوایااوراس نے اخباروں کے ذریعے پہلی ترجیحات کی مردم شماری بلکہ مردہ شماری کی توکل ملاکرڈیڑھ سو پیدائش روزانہ حساب نکلا جو کافی حوصلہ افزاہے اوراگر حکومت چند اوروزیر، مشیر اور معاون خصوصی رکھ لے تویہ تعداد دگنی بھی ہوسکتی ہے اور،
یہ سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اگرچہ ہمیں اس "عورت" کا پتہ معلوم ہے جو اس تیزرفتاری سے پہلی ترجیحوں کو جنم دے رہی ہے لیکن اسے کیفرکردارتک پہنچاناتو دورکی بات اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کیوں کہ کالانعام ہونے کی حیثیت سے ہم ہی اس کے مجبورمقہوراورمحروم شوہرہیں، اس ڈرائیورکی طرح جس نے کہاتھاکہ میں آٹھ گھنٹے مالک کی "بس" میں ہوتاہوں اورباقی وقت بیوی کے "بس"میں ہوتا ہوں، یعنی آٹھ گھنٹے شوفر اوراٹھارہ گھنٹے شوہربیچارا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری یہ زوجہ محترمہ نہایت ہی مالدار "میکے" سے تعلق رکھتی ہے، اس کامیکہ جس کانام توبہت لمباہے لیکن لوگ محبت سے آئی ایم ایف یالکشمی دیوی کہتے ہیں، یہی میکہ اس سارے فسادکی جڑ ہے اوراسی کی ہدایت پریہ اتنی تیزرفتار سے پہلی ترجیحات جنم دے رہاہے ہم لاکھ کہیں کہ بی بی اب بس بھی کروان پہلی ترجیحات میں ذرادھیرج رکھو درمیان میں کبھی کبھی دم بھی لیاکرو، گھڑی بھر۔ لیکن اس نے قسم کھا رکھی ہے کہ شوفر کو جوتی کی نوک پر رکھے گی اوروہی کرے گی جن کی ہدایت پر میکے سے آتی ہے۔
ویسے یہ بات اچھی ہے کہ پہلی ترجیح کوجنم دیتے ہی وہ اسے بھول جاتی ہے اوردوسری کی پیدائش میں مصروف ہوجاتی ہے، ادھرنئی ترجیح کی کلکاری سنائی دیتی ہے توپہلی والی کہیں بھاگ چکی ہوتی ہے چنانچہ اسے یاد بھی نہیں رہتاکہ میں کسی اورپہلی ترجیح کوبھی جنم دے چکی ہوں، اسے ہرترجیح پہلوٹھی ہی کی ترجیح لگتی ہے۔
ادھر "بچہ گان"یعنی پہلی ترجیحات بھی گویا ہوا یا پانی کا بلبلہ ہوتی ہیں کہ دوسرے ہی دن ہوامیں تحلیل ہوکر اگلی پیدائش کے لیے جگہ خالی کرچکی ہوتی ہیں۔ کم بخت یہ پہلی ترجیحات جڑواں بچوں کی طرح آپس میں اتنی مشابہ ہوتی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتاکہ کونسی پہلی ترجیح اورکونسی دوسری ترجیح ہے مثلاً۔
عوام کی فلاح وبہبود حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔
خواتین کی ترقی ہماری پہلی ترجیح ہے
بچوں کی فلاح ہماری پہلی ترجیح ہے۔
بوڑھوں کی فلاح ہماری پہلی ترجیح ہے۔
تیسری جنس کی فلاح ہماری پہلی ترجیح ہے۔
تعلیم ہماری پہلی ترجیح ہے۔
صحت ہماری پہلی ترجیح ہے۔
امن وامان ہماری پہلی ترجیح ہے۔
اسی طرح چلتے جائیے، ہرشہر، ہرسڑک، ہرگلی، ہرگاؤں میں آپ کی ملاقات دوچار پہلی ترجیحات کے ساتھ ہوگی، تاجروں کی بہبود، دکانداروں کی بہبود، خریداروں کی بہبود، صارفین کی بہبود، ڈرائیوروں کی بہبود، کسانوں کی بہبود، مزدوروں کی بہبود، طوطوں کی بہبود، بٹیروں کی بہبود، مرغیوں کی بہبوداورسب کی سب پہلی ترجیح، فلاح ہی فلاح، بہبود ہی بہبوداورپہلی ترجیح ہی ترجیح۔
یہی ہے زندگی، کچھ خواب چند امیدیں