کوئی مرکز بھی نہیں کوئی خلافت بھی نہیں
سب ہی حاکم ہیں مگر کوئی حکومت بھی نہیں
میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہی کچھ دکھا رہا ہوں۔ اس میں ورڈز ورتھ کی طرح تخیل کی آمیزش بھی نہیں بالکل بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے۔ جب ہم خان صاحب پر تنقید کرتے ہیں اور مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ہم نواز شریف یا زرداری صاحب کے حق میں لکھ رہے ہیں۔ آج اس موضوع کو ہم چھوئیں گے بھی نہیں کہ کچھ دلچسپ خبریں نظرنواز ہوئی ہیں۔ تو آج ان خبروں کی خبر لیتے ہیں لیکن سردست ایک پرلطف فقرہ مشفق خواجہ صاحب کا آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ جب کشور ناہید کو اردو سائنس بورڈ کا چیئرمین لگایا گیا تو مشفق خواجہ صاحب نے لکھا کہ اچھا کیا کشور ناہید کو اردو سائنس بورڈ کا چیئرمین لگا دیا گیا کشور کو اتنی ہی سائنس آتی ہے جتنی آئین سٹائن کو اردو آتی تھی۔
میرا خیال ہے کہ اسی قابلیت کی بنا پر وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی لگایا گیا تھا۔ انہوں نے بھی پھر کہاں کہاں سینگ نہیں پھنسائے۔ سوشل میڈیا پر ان کی وزارت ٹاپ ٹرینڈ رہی لوگوں نے ایسے ایسے تجربات کا تذکرہ کیا کہ ہم سرشار ہو گئے۔
ہم دعا لکھتے رہے، وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
ایٹم بم تو ہماری نسلوں کو محفوظ کر گیا۔ وہی نسلیں جنہیں ہم مہنگائی سے مرتا دیکھ رہے ہیں، بھٹو نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے اب تو سچ مچ وہ وقت آ گیاہے کہ بقول ہمارے دوست توفیق بٹ کے گھاس واس جمع کر لیا جائے۔ گزارش یہ ہے کہ آپ سوا تین سے حکومت میں ہیں تو کیوں نہیں کچھ کر رہے عوام کے لئے۔ یہ کیا کہ مہنگائی کے تازیانے لگاتے جائو اور کہتے جائو گھبرانا نہیں۔ اوپر سے ہمارے شیخ رشید ایک ہی بیان داغے چلے جا رہے ہیں کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ یہ تو سوال ہی نہیں سوال تو یہ ہے کہ کیا عوام یا غریب لوگ بھی یہ پانچ سال پورے کریں گے:
ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں
کیا خبر کس نے تیری سمت ہمیں موڑ دیا
ایک اور خبر جس نے بھونچال پیدا کر دیا اور حکومتی وزراء جھوم جھوم کر راگ آلاپ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خاں نے عدالت میں پیشی پر آ کر قانون کی حکمرانی ثابت کر دی۔ وزیر اعظم کا پیشی پ آنا کوئی تاریخی کارنامہ ہے یا کسی پر احسان ہے عدالت کے بلاوے پر آنا کوئی انوکھا واقعہ تو نہیں۔ ئین اور قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ شہید بچوں کے والدین کی دل جوئی آپ نے کتنی کی۔ تب کے پی کے میں آپ کی حکومت تھی۔ حیرت اس پر ہو رہی ہے کہ وزراء کو حیرت ہے کہ وزیر اعظم کو عدالت کیوں بلایا گیا۔ منیر نیازی نے کہا تھا:
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
ایک خبر وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار صاحب کے حوالے سے ہے کہ انہوں نے اپنے تئیں کوئی سوموٹو لیا ہے کہ لاہور میں بخار کی دوائی کیوں نہیں مل رہی۔ دستیابی کو ممکن بنایا جائے گا۔ ان کو یہ بھی تو پوچھنا چاہیے کہ محکمہ کی غفلت کے باعث وقت پر سپرے نہیں کیا گیا تو لاہور میں ڈینگی نے قیامت ڈھا دی۔ ہاں ایک اچھی بات پر ہم داد دیں گے کہ عام ڈینگی ٹیسٹ 90روپے کا رکھوا دیا کہ ڈاکٹر کی ریکمنڈیشن پر۔ باقی کوئی حال نہیں ہسپتالوں میں تو جگہ ہی نہیں ٹیسٹ تو 90روپے کا ہے مگر ڈاکٹر تو پھر ڈاکٹر ہے پندرہ سو سے اڑھائی ہزار روپے تک گلوکوز پلس انجکشن کا خرچ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کورونا کے حوالے سے تو حکومت نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا کہ اس میں باہر سے پیسے مل رہے تھے۔ مگر ڈینگی غریب کا کوئی پرسان حال نہ تھاڈینگی والو کی لائنیں لگ گئیں یہ بھی شکر ہے کہ ڈینگی کی دوائی نہیں یہ اپنا سرکل پورا کرتا ہے۔ جوسز مگر اس میں پینا پڑتے ہیں۔
چلیے ایک اور خبر خاں صاحب کی کہ اپوزیشن کرپٹ سسٹم کی پیداوار ہے۔ مخالفین انہیں سلیکٹڈ کہتے ہیں۔ ایک بات تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگ تبدیلی سے تنگ آ چکے ہیں ٹاک آف دی ٹائون ہے کہ تبدیلی سرکار انہیں معاف کر دے۔ کہ ہم باز آئے محبت سے۔ اٹھا لو پان دان اپنا۔ مزے کی بات یہ کہ خان صاحب اب بھی زور دے رہے ہیں کہ وہ تبدیلی لا کر رہیں گے حالانکہ اب کچھ تبدیل ہونے والا رہ نہیں گیا۔ مجھے پھر شبلی فراز صاحب یاد آئے کہ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی گھوم پھر کر ووٹنگ الیکٹرک مشین پر آن ٹھہرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اپوزیشن اس مشین کو تسلیم کر رہی ہے۔
مقصد یہ کہ اپوزیشن والے دقیانوسی اس تبدیلی کو نہیں مانتے۔ ویسے خاں صاحب کی تبدیلی حکومت کا دارومدار اب صرف ووٹنگ مشین پر ہی ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کل کلاں آنے والی نسل نہ کہے کہ سیاستدانوں نے مشینوں سے بھی کرپشن کروائی حکومت کے ترجمان فرما رہے ہیں کہ اپوزیشن رہنمائوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں جبکہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے اپنے ارکان بھی عدم اعتبار اور اتحادی عدم اتفاق کا شکار ہیں۔ خبریں تو اور بھی ہیں مگر بے خبری ہی بہتر ہے۔ چلئے آخر میں ڈاکٹر اختر سندھو کا ایک شعر:
ایک ہفتے سے ہے بخار ہمیں
تونے پوچھا نہ ایک بار ہمیں