کیا لکھوں، کیسے لکھوں، کیونکر لکھوں، لکھنا تو بہت کچھ ہے۔ ایک ایک موضوع پر مضمون باندھا جا سکتا ہے۔ دل میں ایسی بھی باتیں ہیں کہ نوک قلم پر لانے کی ہمت نہیں۔ دم گھٹا جاتا ہے۔ ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو فوراً ہی بنا بنایا حل پیش کر دیتے ہیں۔ جب پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج آئے تو ایک خلق خدا نے کہا کہ سب کچھ اب عمران خان کے ہاتھ میں ہے چاہے تو آج ہی انتخاب کرا دے چاہے تو اپنی سہولت کے مطابق ڈھیل دے دے۔ صرف الیکشن ہی نہیں اور بھی بہت کچھ عمران ہی کے ہاتھ میں ہے۔
شاید میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جس نے ایسے تجزیوں کو اہمیت بھی دی اور پذیرائی بھی۔ دوسری طرف یہ کہا گیا کہ شہباز شریف کو فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ بات شاید اس کے بس میں نہیں ہے۔ ملک کے حالات اتنے سادہ نہیں ہیں یہ نہیں شہباز شریف کو اپنے اتحادیوں سے پوچھنا پڑے گا بلکہ ایک اور نکتہ بھی ہے۔
اور وہ یہ کہ ملک میں ایک فیصلہ ساز قوت بھی ہوتی ہے جسے ہم مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ یہ ہر ملک کا انجر پنجر اور اس کابنیادی ڈھانچہ ہے جو ناگزیر ہے جس میں جانے کیا کیا شامل ہوتا ہو گا۔ یہ قوت چاہے وہ فوج ہو، عدلیہ ہو یا ملک میں موجود دوسرے سٹیک ہولڈر ہوں انہیں بھی بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ بہرحال اس فیصلہ ساز قوت کو بھی ان فریقین کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں اسے دستور کے اندر دی گئی حدود میں رہنا چاہیے۔ مگر ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ہر ملک میں ایک پاسباں قوت ہوتی ہے۔ یہ درست فیصلہ کرے یا غلط اسے حب الوطنی جذبے کے تحت ملک کے مفاد میں فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جیسے ملک میں اگر یہ قوت کارگر نہ ہوتی تو ٹرمپ جانے کیا کیا فیصلے کر دیتے۔
میں اس قوت کا جواز پیش نہیں کر سکتا، تاہم عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ایک حقیقت ہے اس وقت شہباز شریف استعفیٰ دینا بھی چاہیں تو اس قوت کو نظر میں رکھ کر ہی ایسا سوچ سکتے ہیں۔ اس لئے انتخابات کے اگلے روز میرا تجزیہ یہ تھا کہ اس ملک میں آئندہ دو تین ماہ میں معاملات سدھرنے والے نہیں۔
عمران سے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ وہ مزاحمت کی ایک ایسی علامت بن گیا ہے جو اگر کامیاب ہو جائے تو ملک میں انقلاب تو لا سکتی ہے۔ وگرنہ موجود ڈھانچے میں اسے مفاہمت کے بغیر آگے بڑھنے کا حالات موقع نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید کہتے ہیں عمران نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا ہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کرنا صرف انتخابات کی تیاری کرنا ہے یہ درست بات ہے۔ مگر کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا سوال ہے کیا وہ اپنے بیانیے کو نظرانداز کر کے اپنی مقبولیت کو دائو پر لگا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے میں جس میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔
یہ صرف عمران کے بیانئے کی جیت نہیں ہے بلکہ عمران کی جیت ہے۔ جیسے بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت کا یہ کمال تھا کہ ان پر پینے کا الزام لگا تو انہوں نے فرمایا شراب پیتا ہوں، عوام کا خون نہیں پیتا اور بھی کچھ کہا۔ لوگوں نے اس کی بھی داد دی۔ یقین کیجیے جب 70ء کے انتخابات ہوئے تو کسی کو یقین نہ تھا کہ پیپلز پارٹی اس واضح اکثریت سے جیتے گی۔ سارے تجزیے غارت ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کا حال بھی ایسا نہ تھا جیسے نتائج آئے۔ اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ایک معلق پارلیمنٹ آئے گی او جوڑ توڑ کر کے یحییٰ خاں اپنی کرسی بچا لیں گے مگر سارے تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
پنجاب میں دو دن بعد صوبائی وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونے والا ہے۔ بظاہر پی ٹی آئی کو جیت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاں تجزیے شروع ہیں۔ بہت سے سوالات ہیں۔ حمزہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جیت کر دکھائیں گے۔
اس ملک میں جو کچھ بھی ہو گا وہ بحران کا حل نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آئندہ دو تین ماہ ایک بحرانی کیفیت میں گزریں گے اس میں ہم سب کی غلطیاں اور ذہانتیں شامل ہوں گی پھر خدا کرے ہم درست راستے پر چل پڑیں۔ اس وقت تو انتخابات کا اعلان مسئلے کا حل ہے نہ اس سے احتراز۔ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے بحران کا لفظ بار بار سنا ہے مگر شاید صحیح معنوں میں دیکھا اب ہے اور اس میں سب کا حصہ ہے اس بحران سے نکلنے کے لئے ہماری حماقتیں اور ہماری ذہانتیں سب ذمہ دار ہیں۔
ہم شدید ترین معاشی بحران میں مبتلا ہیں بلکہ ایک ا یسے بحران کا سامنا کر رہے ہیں جو ہمارے لئے ایک بہت بڑا معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی چیلنج ہے۔ یہ نہیں کہ ریاست خطرے میں ہے، بلکہ یہ کہ ہم بحیثیت قوم بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہیں ہمارا کوئی بیانیہ نہیں، ہمارا کوئی وژن نہیں۔ اس کے باوجود ہم ان کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ دعا کیجئے کہ یہ چند ماہ سکون سے گزر جائیں اور ہمیں کوئی راستہ مل جائے۔ وگرنہ خدشات ہی خدشات ہیں۔ اگرچہ میرا ایمان ہے کہ ہم ان خدشات سے ضرور کامیابی سے نکل جائیں گے۔ مگر اپنی ذہانت سے نہیں صرف اللہ کے فضل سے۔
کسی کو یہ بات پسند نہیں تو یوں کہہ لیجیے کہ تاریخ کی قوتیں ہمیں اس گرداب سے ضرور نکال لیں گی۔ انشاء اللہ، اس پورے خطا بیے یا اظہاریے میں میں بہت سی باتیں نہیں کہہ پایا۔ اسی میں بہتری ہے۔ کوئی اتنے کو بھی بہت سمجھے تو اس سے سب کا بھلا ہو گا۔