Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Shabbir Arman/
  3. Mama Younis Ki Yaad Mein

Mama Younis Ki Yaad Mein

لیاری کے ممتاز سماجی وسیاسی رہنما ماما یونس بلوچ آج ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ جمعرات 14نومبر2019ء کی سہ پہر 68برس کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ بیشک موت بر حق ہے ہر جاندارکو ایک دن اس جہاں فانی سے کوچ کر جانا ہے، آگا ہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں، سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں، آج ان کی توکل ہماری باری ہے۔ اس دن اس کے چاہنے والوں نے اس اشک بار آنکھوں سے منوں مٹی دفن کر دیا۔

بے لوث، مخلص انسان دوست ماما یونس بلوچ نے 1951ء میں عروس البلاد کراچی کی قدیمی علاقہ لیاری کے محلہ گل محمد لین میں در محمد بلوچ کے یہاں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول نمبر 2 سے حاصل کی اور سیکنڈری کی تعلیم بھی اسی اسکو ل کی صبح کی شفٹ سے مڈل تک حاصل کی۔ آپ نے عملی زندگی کاآغاز اپنے ذاتی کاروبار سے شروع کیا۔

1971ء میں سماجی سرگرمیوں کاآغاز کیا اور اپنے علاقے کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کا علاقہ گل محمد لین لیاری کے دیگر علاقوں کی طرح ناگفتہ بہ تھا نہ سڑکیں تھیں نہ نکاسی آب ( سیوریج ) کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی پینے کے پانی کا بندوبست تھا، نہ ہی بجلی دستیاب تھی، الغرض علاقہ زندگی کی تمام تر اور بلدیاتی سہولیات سے محروم تھا۔

دوستوں کے باہمی صلاح و مشورہ سے اس وقت کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور حلقہ نمبر 13سے کونسلر منتخب ہوئے۔ ( یاد رہے کہ اس زمانے میں کونسلر پورے حلقے کا ہوا کرتا تھا، آج کی طرح محض ایک وارڈ کا کونسلرنہیں ) کونسلر منتخب ہونے کے بعد آپ نے انتھک محنت ولگن سے اس علاقے کی خدمت کی اور اس علاقے کو وہ تمام سہولیات بہم پہنچائے جس سے وہ محروم تھا۔ آپ کے اس دور میں بلوچ ہال، بسمہ اللہ ہال، فوٹولین ہال، گل محمد لین ہال، بلدیہ پرائمری اسکول گل محمد لین، بلدیہ پرائمری اسکول فوٹولین تعمیرکی گئی۔

آپ کی بے لوث خدمت کے طفیل یہ علاقہ ایک مثالی علاقہ معروف ہوا۔ آپ کی انھی خدمات کے پیش نظر 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی لوگوں نے آپ ہی کو ایک مرتبہ پھر اپنا کونسلر منتخب کیا۔ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کونسل میں آپ 4سال تک ورکس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ اس دوران آپ نے لیاری کے دوسرے علاقوں کے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہے جس میں چاکیواڑہ، میوہ شاہ اور دیگر شاہراہوں کی تعمیر وتوسیع، گبول پارک اور مولوی عثمان پارک ( بھیا باغ ) کے ترقیاتی کام اور پیپلز پلے گراؤنڈ کے آڈیٹوریم کی تعمیر شامل ہیں۔

آپ ہی کے دورمیں لیاری کے مختلف چوراہوں پر خوبصورت مونومنٹ تعمیرکیے گئے، لیاری کے مختلف علاقوں میں لائبریری قائم کیے گئے، جس میں سیٹلائٹ لائبریری سنگھولین بھی شامل تھا۔ آپ نے اپنی ذاتی کوششوں سے لیاری کے نوجوانوں کو ملازمت دلوائی۔

آپ کا دفتر یونین کمیٹی نمبر 36حلقہ نمبر 13گل محمد لین، چاکیواڑہ نمبر1میں تھا جہاں ایک لائبریری بھی تھی، آج کل اس جگہ پر سیوریج پمپنگ اسٹیشن قائم ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس زمانے میں آپ کے گھر پر نصف پی ٹی سی ایل ٹیلی فون نمبر 338326 تھا بطور سماجی کارکن اور اخباری رپورٹرکی حیثیت سے میری ماما یونس سے ملاقاتیں ہوتی تھی وہ جب بھی ملتے انتہائی پیار سے کہتے ( ارمان! یہاں بیٹھو ) یعنی وہ اپنے پاس برابر میں مجھے بٹھاتے تھے اور ان سے لیاری کے بلدیاتی امور پر سیر حاصل گفتگو رہتی۔ ان دنوں میں سماجی تنظیم پاک یوتھ ویلفئیر آرگنائزیشن (رجسٹرڈ) کا بانی چیئرمین بھی تھا۔

جس کے تحت ہم علاقائی سماجی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اکثر مجلس مذاکرہ ( سیمینارز) کا بھی انعقاد کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایکوکانفرنس کے مناسبت سے ہم نے منسٹری آف انفارمیشن (حکومت پاکستان) کے باہمی اشتراک سے پاکستان نیشنل سینٹرکراچی (نرسری ) میں سیمینارکا انعقاد کیا جس کے لیے ماما یونس بلوچ کو مہمان خاص اوراس وقت کے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ابوبکر شیخانی کو بطور صدارت مدعو کیا۔

اسی تقریب میں ماما یونس بلوچ کی ملاقات ابوبکر شیخانی سے ہوئی اور ان کا یہ رابطہ آگے بڑھتا گیا اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب ماما یونس بلوچ نے مسلم لیگ (ن) کے امید وارکی حیثیت سے قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات میں حصہ لیا اور پی پی پی کے امیدوار واجہ کریم داد کے مد مقابل محض چند ووٹوں سے یہ الیکشن ہارا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ماما یونس بلوچ دراصل یہ انتخاب جیت چکے تھے لیکن آخری لمحات میں نتائج میں تبدیلی کی گئی تھی۔

بعد ازاں ماما یونس بلوچ کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ کا مشیر خاص نامزد کیا گیا مگر سرکاری اختیار نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس عہدے سے لیاری کے لیے وہ خدمات سر انجام دے نہ سکے جس کی اہل لیاری کو ان سے توقع تھی۔ ماما یونس سماجی ادارہ لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے نائب صدر بھی رہ چکے تھے۔

پھر نہ جانے ایسا کیا ہوگیا کہ لیاری کے پر امن حالات میں اچانک خراب ہونے لگے، لیاری کے شریف لوگ منہ چھپائے، خاموشی سے کہیں گم ہوگئے اور لیاری پاکستان میں ایک اور غیراعلانیہ ریاست بن گیا، جسے میڈیا نے "گینگ وار" کا لقب دیا اور جو لیاری کی پیشانی پر چسپاں ہوا اس داغ کو لیاری کے نوجوان آج تک مٹانے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب ماما یونس بلوچ جیسی پرعزم و باہمت شخصیت بھی لیاری کی سیاسی وسماجی زندگی سے مایوس ہوگئے اور اسی دوران ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ دن بہ دن علیل ہوتے گئے اور بالآخر یہ دنیا ہی چھوڑگئے۔

ہرچندکہ وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے لیکن ان کی سماجی اور سیاسی خدمات ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر وجمیل عطا فرمائے۔ (آمین)

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran