Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Shabbir Arman/
  3. Talaba Union Par Pabandi Ke 35 Saal

Talaba Union Par Pabandi Ke 35 Saal

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان میں طلباء یونینز پر تشدد ہوگئی ہیں اور پر تشدد طلباء یونینز کیمپس کا تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں ملک میں مستقبل کے رہنما تیار کرتی ہیں، انھوں نے مزید کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی جامعات میں جاری بہترین مثالوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) متعارف کرائیں گے تاکہ طلباء یونین کی بحالی اور سرگرمی شروع ہو اور وہ ملک کی نوجوان نسل کو سنوارنے اور مستقبل کے رہنماؤں کی فراہمی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹویٹ میں کیا ہے۔

گزشتہ دنوں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ملک بھر میں مختلف طلبہ تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلییاں نکالی گئیں۔ احتجاج میں طلبہ اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی، یکساں نظام تعلیم رائج کرنے، زائد فیسوں میں کمی، جامعات کے فنڈز سے کٹوتی ختم کرنے، جنسی ہراسگی روکنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے، تعلیمی اداروں کی نج کاری بند کی جائے، طلبہ کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیا جائے، کالجوں اور جامعات کے فنانس ریکارڈ تک رسائی دی جائے، ایچ ای سی کی حالیہ بجٹ کٹوتیاں اور اساتذہ کی چھانٹیوں کا عمل ختم کیا جائے، معیار تعلیم کو جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے، جیسے مطالبات شامل تھے۔

پاکستان بھرکے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین اور طلبہ تنظیموں پر پابندی کو 35 سال بیت چکے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں طلبا ء یونین پر پابندی سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے دورمیں 9 فروری 1984ء میں لگائی گئی تھی۔ بعد ازاں 1998ء میں بھی میاں محمد نواز شریف نے بھی بحثییت وزیر اعظم تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں اور یونینوں پر پابندی لگانے کا اعادہ کیا تھا۔

اس سے قبل 1988ء میں اور بعد میں 2008ء میں طلباء یونین پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا۔ طالب علم اس پابندی کو طلباء کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اگست 1992ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصلاح معاشرہ اور قومی حالات کا جائزہ لینے کے بعد عوام کو ملکی قومی مفادات کے خلاف کاموں کی نشاندہی کرتے ہوئے جب کہ ان کی روک تھام کے لیے اس وقت کی حکومت کو اپنی قومی ذمے داری کے تین نکات ٭ اخلاقی تربیت ٭ اجتماعی دباؤ ٭ قانونی پابندی، پر مبنی سفارشات کے تحت محسوس کیا کہ تعلیمی درسگاہوں میں حصول تعلیم سے زیادہ سیاست نے ڈیرہ جما لیا ہے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس وقت کی حکومت سے تعلیمی درسگاہوں میں طلباء کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس وقت حکومت نواز شریف کی تھی۔

آج بھی طلباء کا موقف ہے کہ ان کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنا ان کی حق تلفی ہے۔ طلباء کا کہنا ہے کہ طلباء تنظیمیں طلباء کو شعور وآگہی فراہم کرتی ہیں جب کہ پابندی ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہے۔

یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تحریک پاکستان میں طلباء نے بہت کام کیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ طلباء کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخالفین نے ہمیشہ طلباء کو آپس میں دست وگریبان کرکے کمزور سے کمزور ترین کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 18اکتوبر 1945ء کو بلوچستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کوئٹہ کے زیر اہتمام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ طلباء سیاست کا مطالعہ ضرورکریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا ایک حصہ نہ بنائیں۔

ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پرتھی، اگر قائد اعظم چاہتے تو طلباء کو بڑی آسانی سے مسلم لیگ کی مفادات کے لیے استعمال کرسکتے تھے جس طرح دیگر ملکی سیاسی پارٹیاں طلباء کو اپنی پارٹی مفادات کے لیے استعمال کرتی کرتی چلی آرہی ہیں۔ لیکن قائد اعظم نے 10نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چھٹے اجلاس سے جوکہ جالندھر میں منعقد ہوا تھا، خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ، میں جب آپ سے کہتا ہوں کہ آپ سیاست میں کوئی عملی حصہ نہ لیں تو آپ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہ کریں، میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ خود کو تیار کریں، آپ کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ہے تعلیم، تعلیم، تعلیم۔ اس میں مبالغہ نہیں کہ قائد اعظم پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے طلباء کو سیاست سے دور رہنے کی ہدایت کی اور حصول تعلیم کا درس دیا۔

نوجوان نسل چونکہ ملک وقوم کے معمار ہوتے ہیں اور مستقبل میں یہی نوجوان نسل ملک کی باگ ڈور سنھبالیں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں نوجوانوں کو ملکی وقومی مفادات کی بجائے ہمیشہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس وجہ سے آج ہمارا شمار ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔

پاکستان کے بد خواہ نہیں چاہتے تھے اور اب بھی نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان کا آنے والا کل آج کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو، اس لیے وہ ملک میں بدستور خلفشار اور افراتفری پھیلاتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنا ہدف حاصل کرسکیں۔ افسوس! کم فہم اور ناپختہ ذہن ان کی باتوں میں آتے رہتے ہیں۔

سیاسی مفاد پرست لوگ ایک طرف اخبارات میں بیانات شایع کراتے رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے اور کلاشنکوف کلچر سے پاک کیا جائے لیکن جب عدلیہ اور حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہوجاتی تھی تو پھر یہی لوگ قومی مفادات کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے اس شبہ کو تقویت پہنچی تھی کہ طلباء تنظیموں کے نام پر غیر طالب علم عناصر گھس آتے تھے اور پھر ان تاریک راہوں میں نہ جانے کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہوگئے تھے۔

جب تک طلباء خود اپنے مستقبل کی فکر نہیں کریں گے حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔ درس گاہوں کا ماحول طلباء کے تعاون ہی سے خوشگوار بن سکتا ہے۔ طلباء کو غیر جانبدارہو کر سوچنا چاہیے کہ وہ جن سیاسی بازی گروں کے آلہ کار بنتے رہے ہیں وہ ان کے مستقبل کے ضامن کیسے ہوسکتے ہیں؟ کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہوچکے ہیں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں اندھیری ہوچکی ہیں۔

کیا ملا تھا ان کو اس راستے پر چلتے ہوئے؟ اے کاش! ہمارے طلباء جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے اپنا بھلا برا غیر جانبدار ہوکر سوچیں۔ کل تک ہم 21 ویں صدی کی دہلیز پر کھڑے تھے اور ہمیں ہوش نہیں تھا، آج ہم 21 ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ایک جدیدٹیکنالوجی دنیا ہمارے سامنے ہے جہاں ہمیں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر پاکستانی اپنی اپنی جگہ اپنا فرض منصبی ادا کرے۔

خود غرضی، انا پرستی اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفادات کا خیال کریں اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ بدلیں۔ اب تک ہماری پالیسی نفرت اور عناد پرمبنی رہی ہے اور ان ہی بنیادوں پر ہماری قومی زندگی رواں دواں ہے۔ جو ایک باشعور اور مدبر قوم کی شایان شان نہیں ہے۔

ہمیں وہی قومی پالیسی اپنانی چاہیے جو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہو اس امرکو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل بنیاد پر قائم طلباء یونینزکی بندش سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا رہا ہے اور وہ راہ فرار اختیارکرتے ہوئے گمنام منزل کے راہی بنتے رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو سوشل بنیاد پر طلباء یونینزکو بحال کرنا چاہیے۔ طلباء یونین پر عائد پابندی ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ طلباء کو بھی ان کا جمہوری حق مل جائے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھرنے کا موقع مل سکے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran