آج کل ہم زمانہ حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ماضی ہمارے ذہن سے محو ہوچکا ہے، البتہ مستقبل کا خوف اپنی جگہ موجود ہے۔ ہم ہرِ وقت چوکنا ہیں اور اردگرد کے ماحول پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہو چلا ہے کہ ذرا سی کوتاہی ہمارے اپنے لیے یا خاندان کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ہم ہر دن ذاتی ذمے داری کے مکمل احساس کے تحت گزار رہے ہیں۔ بار بار اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ گھرکو صاف ستھرا رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ غذا پر مکمل توجہ دے رہے ہیں۔ اب ہمیں علم ہو چلا ہے کہ گرم پانی پینے کی کیا افادیت ہے، بھاپ لینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ آج ہم جسم کے مدافعتی نظام کے کمزور یا مضبوط ہونے کے فائدے و نقصان اور غیبت سے کافی حد تک باز آچکے ہیں، اس وقت اگر ہمیں کسی چیزکی پرواہ ہے تو وہ اپنی جان اور قریبی رشتوں کی صحت و زندگی کی فکر ہے۔
ہم بے دھیانی کے اندھیرے غار سے باہر نکل کر یکسوئی کے مرکز کی طرف واپس لوٹے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہمارے پاس بے دھیانی کی کیفیت بدستور موجود ہے۔ موجودہ صورتحال خطرناک ہونے کے ساتھ دھیان طلب بھی ہے۔
فطرت نے خطرے کا الارم بجا دیا ہے اور انسانیت کو خاموش پیغام دے رہی ہے کہ فطرت سے بغاوت یا فطرت کے اصولوں کو نظر انداز کرنے کے نتائج انتہائی خراب ہوسکتے ہیں۔ جیسے وقت کے لیے ہم گھڑی استعمال کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے جسم کی گھڑی ہے، جو وقت کی تبدیلیوں کے تابع ہے۔ اس حیاتیاتی گھڑی کو قدرت کے نظام نے کچھ اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ جسم کے ریشے واعضا اس حیاتیاتی ردھم کے تابع ہیں۔ یومیہ تبدیلی (Circadian Rythms) انسانی جسم، ذہن و رویوں کا تعین روزمرہ کے سلسلے کی بنیاد پر طے کرتے ہیں، جو اعصابی نظام کو اندھیرے وروشنی کی آمد سے آگاہ کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر ہمارے سونے وجاگنے کے اوقات طے پاتے ہیں۔
حیاتیاتی گھڑی، حیاتیاتی ردھم کو تحرک عطا کرتی ہے، جس کی بنا پر وقت کا دائرہ انسانی جسم سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانی جسم بھی اس نظام کا عادی ہے۔ علاوہ ازیں (Circadian Rythms) انسانی جسم کے بڑے کاموں پر مامور ہیں۔ جیسے سونے جاگنے کا تحرک، کھانے کی عادات و ہاضمے کی فعالیت، ہارمونزکا اخراج، جسم کا درجہ حرارت و دیگر کام وغیرہ آجاتے ہیں۔ اس نظام میں خود ساختہ تبدیلی یا رکاوٹ، ذہنی وجسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
انسانی ذہن کا ایک حصہ (SCN) Superachaismatic Nucleusہے، جو Circadian Biological Clock کو ضابطے میں رکھتا ہے۔ Hypothalamus میں پائے جانے والے خلیے، جو روشنی و اندھیرے کی باہم معلومات پہنچانے پر مامور ہیں۔ دن کے وقت Cortisole اور رات کو Melatonin ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ جسم کا کیمیائی اثر ہے، جو رات میں پر سکون نیند اور دن میں جسمانی تحرک کا باعث بنتا ہے۔ اس کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے، نیند معمول کے مطابق آتی ہے۔ علاوہ ازیں جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ وقت پر اور اچھی نیند وہ محور ہے، جس کے اردگرد انسانی صحت کا تانہ بانہ بنا ہوا ہے، لیکن مصنوعی روشنی، سیل فون، کمپیوٹرز اور ٹیلی وژن کی روشنی میں ہارمونز کے پیدا ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور نیند کے فطری دورانیے کو متاثر کرتی ہے۔
ڈاکٹر مائیکل کا کہنا ہے کہ سرکیڈین ردھم کے جسم پر واضح اثرات پائے جاتے ہیں، جو آپ کی فزیولاجی پر کسی نہ کسی طور پر گرفت رکھتے ہیں۔ جدید ریسرچ کے مطابق دیر سے کھانے کے اوقات، جس وقت میلا ٹونن کا اخراج ہوتا ہے، جسم کے فطری ردھم کو متاثرکرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے موٹاپا کئی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
کورونا وائرس بیماری سے لڑنے اور صحت یابی کی طرف پیش رفت کا استعارہ بھی ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے سیاسی، سماجی ومعاشی نظام کے لیے اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جدید دورکی ترقی کا راز انسانی قدروں کی پامالی و زوال میں پوشیدہ ہے۔ جدید دور کی معیشت نے زمین سے لے کر فضائی آلودگی تک، انسانی زندگی، و جنگلی حیات کی بقا کا دائرہ تنگ کرکے رکھ دیا ہے۔
موجودہ مشکل حالات ہماری برداشت، اخلاقی و انسانی قدروں کے پرکھنے کا پیغام ہے۔ یہ وقت ہمیں بتا رہا ہے کہ ہم ذہنی وجسمانی طور پر کہاں کھڑے ہوئے ہیں! ہم نے فقط خواہشات کا جال اپنے اردگرد پھیلایا ہوا ہے۔ روحانی طور پر ہم کھوکھلے ہوچکے ہیں۔
جب دنیا فطری رویوں و اقدار سے دور جانے لگتی ہے تو فطرت روپ بدل کر ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے تاکہ ہمیں اپنی غلطیوں کا ادراک ہوسکے اور ہم جسم کے بھنور سے باہر نکل کر روح کی تازگی کو محسوس کرسکیں۔
شاید یہ وقت زمین و انسانی زندگیوں کی ازسر نو تعمیر کا ہے۔ کسی بھی تخریبی عمل سے گزرنے کے بعد تعمیری سوچ و رویے بیدار ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمیں اپنی صحت کی ذمے داری انفرادی طور پر لینی ہے۔ کسی بھی بڑے مسئلے کی نشاندہی، اس کی قبولیت یا ادراک تعمیری پہلو سے روشناس کرا دیتا ہے۔ بیماری غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ غفلت، آگہی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب برے نتائج سامنے آتے ہیں۔ بیماری، سمجھ، سیکھنے و سکھانے کے مواقعے لے کر آتی ہے۔ یہ وقت اندر کے طبیب کی آگہی کا ہے کہ آپ خود اپنی ذات و دوسروں کو شفایابی عطا کرسکتے ہیں۔ انسان جب اپنی ذات کو شفا بخش سکتا ہے تو وہ دوسروں کو آب حیات عطا کرسکتا ہے۔
اس پرخطر دور میں جب دنیا خواب غفلت سے بیدار ہونے کی کوشش کر رہی ہے، مریض و طبیب کا رشتہ مضبوط انسانی بنیادوں پر استوار ہو رہا ہے۔ یہ حقیقی مسیحا ہیں جو انسانوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اس وقت دکھی انسانیت کی واحد امید ہیں۔ یہ مسیحا اور فطرت کی دین غذائیں، انسان کی شفا کا وسیلہ بن رہے ہیں۔
فطرت سے بڑا منصف اور کون ہوسکتا ہے۔ جو انسان کے وجود کی بقا کا جواز اور شفایابی کا ہنر رکھتی ہے۔ مظاہر فطرت کی روح کو سمجھے بغیر، انسان اپنی زندگی کے لیے بہتر حکمت عملی و تاثیر مسیحائی نہیں ڈھونڈ سکتا۔ قدیم دانشمندانہ سوچ، انسان کو لمحہ موجود کی افادیت سے بہرہ ور ہونے کا درس دیتی ہے۔ جو لمحہ انسان کو میسر ہے، اسے اس لمحے کی نزاکت یا افادیت کو سمجھنا ہے۔ حال میں جینے کا مطلب مشاہداتی و تجزیاتی سوچ کا فروغ ہے۔ مشاہدہ اور تجزیہ، صحیح وقت پر درست فیصلہ کرنے کا ہنر عطا کرتے ہیں۔
موجودہ حالات میں دکھ، کرب، خوف اور احتیاط جیسے رویے ہماری زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ احساس کے یہ دھارے ہمیں بہت کچھ سمجھا رہے ہیں۔ دکھ، جذباتی شفافیت کا وسیلہ ہیں اور کرب حالات کے لیے آئینہ جب کہ خوف اگر تعمیری ہے تو طاقت بن جاتا ہے۔ اور احتیاط، ذاتی ذمے داری کی فعالیت کا ثبوت ہے۔
فطرت کو انسان نے بڑے دھوکے دیے۔ ہر طرح سے ستایا اور بے رحمی دکھائی مگر فطرت ہمیشہ سے انسان کے لیے پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی آئی ہے۔ شاید اسی لیے اس نے انسان سے اپنی شفا یابی کے لیے وقفہ طلب کیا ہے اور انسان کو وقت دیا ہے سوچنے کے لیے تاکہ اسے اپنی غلطیوں و کوتاہیوں کا احساس ہو اور وہ دھرتی کو دیے ہوئے اپنے زخموں کا ازالہ کرسکے۔