Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Shakeel Farooqi/
  3. Buzurg Shehrion Ki Halat e Zaar

Buzurg Shehrion Ki Halat e Zaar

انگریزی کے نابغہ روزگار ڈرامہ نویس اورشاعر ولیم شیکسپیئر نے انسان کی زندگی کو ایک اسٹیج کہا ہے اور زندگی کے ڈرامے کو سات مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ بڑھاپا اس ڈرامے کا آخری حصہ ہے۔ جب انسان ایک مرتبہ پھر بچے کی سی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف امور انجام دینے کے لیے اسے دوسروں کی ضرورت پیش آتی ہے اور ان کی مدد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے کھا بھی نہیں سکتا۔ چلنا پھرنا تو کجا اٹھنے بیٹھنے حتیٰ کہ لیٹے ہوئے کروٹ بدلنے کے لیے اسے دوسروں کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ پیرانہ سالی کی اس کیفیت کو مرزا غالب نے جن کا انداز بیان اور ہے اپنے اس خوبصورت شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

بڑھاپے کی حالت میں نہ صرف دوست احباب بلکہ ہاتھ پاؤں اور اعصاب بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ "بڑھاپا، برا آپا" یعنی بڑھاپے میں اپنا آپا بھی برا لگنے لگتا ہے۔"

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بوڑھوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے۔ ہم نے اس کا بذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ جاپان میں ہمیں بوڑھے بکثرت نظر آئے۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی کم و بیش بوڑھوں کی تعداد میں اضافے کی شرح ایسی ہی ہے۔ اس کا بنیادی سبب میڈیکل سائنس کی برق رفتار ترقی ہے۔ جس کی وجہ سے ان امراض کے علاج کی دوائیں تیار ہو رہی ہیں جنھیں کسی زمانے میں لاعلاج قرار دیا گیا تھا۔ لہٰذا پہلے جو بیماریاں جان لیوا ہوا کرتی تھیں ان کا پکا علاج دریافت کیا جاچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ماہرین صحت کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے اور غالب کی زبان میں یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ:

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

اب ٹی بی جیسی ہلاکت خیز بیماری کا شافی علاج دریافت ہو چکا ہے۔ بہت سی بیماریوں کے علاج کی وجہ سے اب اموات کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے زندگی کا دورانیہ بھی طویل ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ وہ دن بھی آجائے کہ بڑھاپے کی بیماری کا علاج بھی دریافت کرلیا جائے۔ بقول شاعر:

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

زمانے کے انداز تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جس کے ساتھ ہی ساتھ معاشرتی تبدیلیاں بھی تیز رفتاری کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں۔ یہ صنعتی انقلاب کا کارنامہ ہے۔ بڑے خاندان کا روایتی نظام دم توڑ رہا ہے اور سنگل فیملی کا نظام زور پکڑ رہا ہے۔ نئی تہذیب پرانی تہذیب کو اکھاڑ کر اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں معاشرتی شکست و ریخت کے المیہ کا نقشہ انگریزی کے ممتاز شاعر Oliver Goldsmith نے اپنی طویل نظم The Deserted Village میں اس خوبی سے کھینچا ہے کہ آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور پڑھنے والا دل گرفتہ ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بزرگ شہریوں کی صحت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ان ممالک میں نہ صرف بے شمار مراعات بزرگ شہریوں کو حاصل ہیں بلکہ انھیں خصوصی مراعات اور رعایات میسر ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں بزرگوں کا یہ حال ہے کہ:

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں

ایک وقت وہ بھی تھا جب ہمارے یہاں بزرگوں کی غلطی کو پکڑنا بھی ایک سنگین اخلاقی جرم سمجھا جاتا تھا اور عالم یہ تھا کہ "خطائے بزرگاں گرفتن خطائت" مگر اب مغربی تہذیب کی نقالی میں ہمارا حال یہ ہے کہ:

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

یعنی "دھوبی کا کتا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا"۔ وطن عزیز میں یکے بعد دیگرے جتنی بھی حکومتیں آئیں ان میں سے ہر ایک نے بزرگوں کی بہتری کے حوالے سے زبانی جمع خرچ تو بہت کیا، لیکن کوئی قابل ذکر عملی قدم اٹھانے کی کسی کو بھی توفیق نہیں ہوئی۔ بزرگ شہریوں میں بے چارے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جنھیں ریٹائرڈ کہا جاتا ہے۔ یہ بے چارے مسلسل مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ تبدیلی کی دعوے دار پی ٹی آئی سرکار نے بھی ان بے چاروں کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا بلکہ انھیں تنخواہوں اور پنشن میں سالانہ اضافے سے بھی محروم کردیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بقول شاعر:

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے

البتہ پنشنرز کے حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اب انھیں اپنے حیات ہونے کے بارے میں بھاگ دوڑ کرکے دفتروں میں جاکر یہ ثبوت پیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرنا پڑے گی کہ میں زندہ ہوں۔ کاش حکومت عمر رسیدہ پنشن یافتگاروں کو ان کے گھر کی دہلیز پر باقاعدگی کے ساتھ ان کی پنشن پہنچانے کا انتظام کرے اور اس کمر توڑ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے پنشن میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran