Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Shakeel Farooqi/
  3. Hasil Bichar Gaya

Hasil Bichar Gaya

بلوچستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ ذرا "پاکستان "کے نام کی لفظی ساخت پر ہی توجہ فرمائیں تو یہ دلچسپ انکشاف ہوگا کہ پاک + ستان سے مل کر ہی لفظ " پاکستان " وجود میں آیا ہے جس میں لفظ " ستان" بلوچستان کی نمائندگی اور شمولیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی پاک+ ستان = پاکستان۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان کا وجود تو کیا تصور بھی ممکن نہیں۔ بلوچستان محض رقبے میں ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ معدنیات اور اپنے جغرافیائی محل ِ وقوع کے نقطہ نظر سے بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اندرونی سیاسی قوتوں کی آپس کی کشمکش اور بیرونی قوتوں کی گھر کے میر جعفروں اور میر قاسموں کے ساتھ ملی بھگت اور ریشہ دوانیوں نے بلوچستان کو "چیستان"بنا دیا، یوں یہ بدقسمت صوبہ آگے بڑھنے کے بجائے روز بروز پسماندگی کی دلدل میں دھنس کر ترقی معکوس کر رہا ہے۔

ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے دو سال تک خدمات انجام دینے کے دوران ہمیں نہ صرف ژوب میں ریڈیو اسٹیشن کے قیام میں معاونت کا شرف حاصل ہوا بلکہ بلوچستان کے حالات ومسائل سے آگاہی اور وہاں کے اربابِ اختیار سے واقفیت اور ان کی کارگزاریوں کے مشاہدے کا خوب موقع بھی ملا۔

یہ درد بھری داستان بہت طویل ہے اور اسے بیان کرنا اس وقت مقصود بھی نہیں۔ اس وقت ہماری خامہ فرسائی کا مقصد بلوچستان کی سیاست کے اس مہر تاباں کو خراج ِ عقیدت پیش کرنا ہے۔ ہماری مراد میر حاصل خان بزنجو سے ہے جو گزشتہ دنوں ملک عدم روانہ ہوگئے۔

میر حاصل خان بزنجو نے پاکستان کے پرچم کے سائے تلے رہتے ہوئے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ان کے والد میر غوث بخش بزنجو کا شمار چوٹی کے سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ سردار عطاء اللہ مینگل جیسے عظیم بلوچ سیاست دان انھیں اپنا سیاسی گرُو مانتے تھے اور ان کے بارے میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح میر غوث بخش بزنجو بھی سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ موروثی اثرات کی اولاد میں منتقلی کی حقیقت کو اب میڈیکل سائنس بھی ثابت کرچکی ہے۔

اس حوالے سے یہ ہندی کہاوت آپ نے بھی سُنی ہوگی۔" باپ پر پوُت، پِتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا "۔ مطلب یہ کہ باپ کے کچھ نہ کچھ اثرات بیٹے میں بھی ضرور آتے ہیں۔ اس کہاوت کے مصداق میر حاصل خان بزنجو کے خمیر اور خون میں سیاست پہلی سانس سے آخری سانس تک شامل رہی۔ بلوچ عوام کی خوشحالی ترقی اپنے والدِ محترم کی طرح ان کا بھی مقصدِ حیات تھا لیکن ا س کا حصول انھیں وفاق ِ پاکستان کے دائرے میں رہ کر ہی قبول تھا۔ بلوچ عوام کے لیے ان کی ہمدردیاں دیگر کسی بھی قوم پرست بلوچ لیڈر سے کم نہیں تھیں، لیکن وہ اس پر وفاق ِ پاکستان کی سا لمیت کو قربان کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔

ان کی اور دیگر بلوچ قوم پرستوں کی سوچ اور اپروچ میں سب سے بڑا فرق بس یہی تھا۔ وہ جتنے مخلص بلوچستان سے تھے اتنے ہی وفا دار وفاقِ پاکستان سے بھی تھے۔ سیاست میں ملی ان کا انداز اپنے والد سے مختلف تھا۔ گھن گرج کے بجائے ان کے یہاں مدبرانہ دھیما پن تھا جو ان کی گہری سوچ، متوازن اپروچ اور شریفانہ سیاست کا آئینہ دار ہے۔

شرافت کی روایت کے نوابزدہ نصراللہ خان صاحب جیسے علمبردار رفتہ رفتہ اُٹھتے جارہے ہیں۔ میر حاصل خان بزنجو بھی اسی روایت کے امین تھے۔ لب ولہجے کا دھیما پن اور زبان و بیان میں انتہائی نزاکت و شائستگی ان کا اختصاص اور طرّہ امتیا ز تھا۔ کیا مجال جو شدید سے شدید اشتعال انگیز ی ان کے پیمانہ ضبط و تحمل کو ذرا سا بھی چھلکا سکے۔ واقعی وہ قوت برداشت کے کوہ ِ گراں تھے۔ وہ جوش کے نہیں ہوش کے قائل تھے۔ ان کی ایک اور نمایاں خوبی خاکساری اور انکساری تھی۔ سرداری کی خُو بو، ان کے قریب سے بھی نہ گزری تھی۔ عام آدمی سے گہری دلچسپی ان کی زندگی کا مشن تھا، وہ صحیح معنوں میں قائد ِ عوام کہلانے کے مستحق تھے۔ ان کی غیر معمولی مقبولیت کا بس یہی راز تھا۔

میر حاصل کی زندگی میں سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ اخلاقیات کو ان کی سیاست میں اوّلیت حاصل تھی۔ کیا مجال جو جذبات کی رو میں بہہ کر ان کی زبان سے اپنے کسی مخالف یا حریف کے بارے میں کبھی اخلاق سے گرا ہوا ایک لفظ بھی غلطی سے نکلا ہو یا شائستگی کا دامن بُھولے سے بھی ان کے ہاتھوں سے کبھی چُھوٹا ہو۔ وہ سچے اور کھرے با عمل رکن ِ پارلیمان تھے جو اس عقیدے پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ جو غیر پارلیمانی زبان بولنے والے رکن کو پارلیمان میں قدم رکھنے کا بھی حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے وہ آج کے ان ممبرانِ پارلیمان سے یکسر مختلف تھے جو جوش ِ خطابت اور طیش میں آکر گالم گلوچ اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی پراتر آتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ:

کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے

وہ 03 فروری 1958 کو خضدار کی تحصیل نال میں پیدا ہوئے۔ ان کی سیاسی بلوغت اور ذہنی بزرگی کے آثار جامعہ کراچی میں طالب ِ علمی کے زمانے سے ہی نظر آنے لگے تھے جہاں وہ United Students Movement (USM)نامی طلبا کی ترقی پسند تحریک کے صدر تھے۔

کراچی یونیورسٹی ان کی مادرِ علمی ہے جہاں سے انھوں نے فلسفہ کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ نوجوانی میں ہی بزرگانہ طرز ِ عمل کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھیوں نے انھیں " ابّا" کے خطاب سے نواز دیا۔ مفاہمتی سیاست کی غیر معمولی صلاحیت کے جوہر میر حاصل میں زمانہ طالب علمی کے دور ان ہی نمایاں ہوگئے تھے۔ سیاسی سرکس کے وہ ایسے با کمال رِنگ ماسٹر ( Ring Master ) تھے جو شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے کے ہنر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے پس پرد ہ ان کی جادو گری کا کمال اپنے عروج پر پہنچ کر دم توڑ گیا۔

اس تحریک کی ناکامی نے انھیں دل برداشتہ اور مایوس کر دیا اور ان پر یہ تلخ حقیقت واضح ہوگی کہ وطن عزیز میں سیاست کا اب اللہ ہی حافظ ہے۔ رہی سہی کسر سینیٹ ( Senate ) کی چیئر مین شِپ کے الیکشن میں ان کی شکست نے پوری کر کے یہ بات ثابت کر دی کہ وطن عزیز کی سیاست میں کا چلن باقی نہیں رہا۔ آخر کار پاکستان کی سیاست کا یہ مرد میداں دشمنِ جاں سرطان کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے 21 اگست 2020 بمطابق یکم محرام الحرام 1442 زندگی کی بازی ہار گیا اور جاتے جاتے یہ کہہ گیا:

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکو ں

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran