مرزا غالب یاد آگئے جن کی 151 ویں برسی گزشتہ 15 فروری کو نہایت عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اگرچہ مرزا نے میر تقی میرکی طرح یہ دعویٰ تو نہیں کیا کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا" تاہم ان کا فرمایا ہوا سند کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ زبان کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے ان کا درج ذیل شعر بڑا وزن رکھتا ہے:
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
بات بالکل صاف اور سیدھی سادی ہے اور وہ یہ کہ زبان اظہار و ابلاغ کا وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ایک انسان اپنی بات دوسرے انسان تک پہنچاتا ہے۔ انسان اپنی اسی امتیازی خصوصیت کی بنا پر دنیا کے تمام ذی روحوں پر فوقیت رکھتا ہے اور حیوان ناطق کہلاتا ہے۔ پس دنیا بھر کی تمام زبانیں انسانوں کے درمیان پلوں (Bridges)کا درجہ رکھتی ہیں جن کے بغیر باہمی رابطے کا تصور بھی عبث ہے۔ اب اگر ہم اپنی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگالیں اور اس کے نتیجے میں ہمیں یہ زبانیں پلوں (Bridges) کے بجائے رکاوٹیں (Barrier) دکھائی دینے لگیں تو بھلا اس میں ان معصوم زبانوں کا کیا قصور ہے؟ افسوس صد افسوس کہ فسادیوں نے زبانوں کو بھی لڑنے جھگڑنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔
حالانکہ زبانوں کی حیثیت رنگارنگ پھولوں کی سی ہے جو نہ صرف دیکھنے والے کی آنکھوں کو فرحت و تازگی بخشتے ہیں بلکہ اپنی جدا جدا بھینی بھینی خوشبوؤں سے دیکھنے والوں کو سرشار بھی کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے مذہب کو نہ ماننے والے الحاد پسند منکرین خدا بھی ماں کی عظمت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ مادر وطن کی اصطلاح بھی ماں سے شدید اور بے انتہا محبت کی مرہون منت ہے۔ سو ماں بولی سے بڑھ کر اور کوئی بولی نہ تو آسان اور رواں ہو سکتی ہے اور نہ پیاری۔ جس طرح ماں سے محبت ایک فطری تقاضا ہے اسی طرح مادر وطن اور مادری زبان سے محبت بھی عین فطرت ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی ماں کا تو بے حد احترام کریں اور دوسروں کی ماؤں سے بے ادبی اور نفرت کا اظہار کریں۔ دنیا کی کوئی ماں یہ نہیں سکھاتی کہ دوسروں کی ماؤں سے نفرت کی جائے یا انھیں واجب الاحترام نہ سمجھا جائے۔ مذہب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بقول شاعر:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
لیکن فساد پسندوں اور نفرت کے پجاریوں و پرچارکوں نے مذہب کو بھی بناء فساد بنا لیا ہے۔ مذہب تو درکنار خود ایک خدا، ایک نبی اور ایک قرآن کو ماننے والے مسلمان عقائد و مسالک کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف ہوکر برسر پیکار ہیں جس کا نقشہ شاعر ملت علامہ اقبال نے نہایت دل سوزی کے ساتھ یوں کھینچا ہے:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
جس طرح دنیا میں آباد تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں اسی طرح دنیا میں بولی جانے والی تمام بولیاں اور زبانیں بھی اولاد آدم ہی کی اولاد ہیں۔ ہم کوئی ماہر لسانیات نہیں کہ زبانوں کی پیدائش، افزائش یا ارتقا کے حوالے سے لب کشائی کرسکیں چہ جائیکہ میر صاحب کی طرح سے یہ دعویٰ کرسکیں کہ " مستند ہے میرا فرمایا ہوا " ہماری جو بھی گزارش یا عرضداشت ہے وہ ایک ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے ہے جسے زبانوں کا چسکا ہے۔ اگرچہ اردو ہماری مادری زبان ہے لیکن ہمیں دوسری زبانوں سے بھی لگاؤ ہے۔ اسی لگاؤ نے ہمیں اردو کے علاوہ فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی سیکھنے پر اکسایا، کوشش تو ہم نے عربی اور جاپانی سیکھنے کی بھی کی تھی مگر افسوس کہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
مثل مشہور ہے کہ "مچھلی کے بچے کو تیرنا کس نے سکھایا" یہی مثال حرف بہ حرف مادری زبان پر بھی صادق آتی ہے جس کی کوئی باقاعدہ تعلیم نہیں دی جاتی۔ بچہ اسے اپنی ماں کی گود سے سیکھ کر بولتا ہے۔ یہ قواعد و ضوابط اورگرائمر کے مصنوعی اصولوں سے ماورا ہونے کی وجہ سے خالص، انوکھی اور نرالی ہوتی ہے۔ اس لیے ماں بولی کا مرصع اور آرائشی زبان سے کوئی موازنہ نہیں۔ رسمی شاعری کے مقابلے میں لوک گیتوں کی سحر انگیزی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ کیونکہ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
انسانوں کو کسی نہ کسی بہانے آپس میں لڑا کر عوامی بھائی چارے کو ختم کرکے ان کو تقسیم کرنا اور اپنی حکمرانی کا راستہ صاف کرنا مفاد پرست سیاست دانوں کا برسوں پرانا اور سب سے آزمودہ اور کارگر ترین حربہ ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ لسانی فرق کو بھی اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے نہایت سفاکی اور عیاری کے ساتھ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ ظالموں نے لسانی تنوع کو لسانی تعصب کا رنگ دے کر انسانوں کو آپس میں لڑا دیا۔ اس حوالے سے قاتلوں کی چالوں پر کلیم عاجز کا یہ زبردست شعر یاد آرہا ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے چینی زبان بولنے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسرا نمبر انگریزی کا ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد ساڑھے تین سو ملین کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں زبانوں کی تعداد 76 ہے جن میں 66 مقامی زبانیں شامل ہیں۔ میڈیا خصوصاً ریڈیو پاکستان ان زبانوں کو نہ صرف زندہ و پائندہ رکھنے بلکہ انھیں فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پنجابی تمام پاکستانی زبانوں میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اس کے بعد سندھی، پشتو، ہندکو، سرائیکی اور بلوچی وبراہوی زبانوں کا نمبر آتا ہے۔ بلتی، شینا، گوجری، کھوار وغیرہ سمیت دیگر بولیاں اس کے علاوہ ہیں۔
سندھ کے شہروں خصوصاً کراچی میں آباد کاروباری برادری المعروف میمن برادری کی زبان گجراتی ہے جسے بعض لوگ میمنی بھی کہتے ہیں۔ تاہم نئی نسل کا رجحان تیزی کے ساتھ اردو کی طرف ہو جانے کی وجہ سے اس کے معدوم ہوجانے کا خدشہ لاحق ہے۔ مقامی زبانوں کے معدوم ہوجانے کے خدشے سے دوچار دنیا بھر کے ممالک میں پاکستان کا نمبر 28 واں ہے۔ زبانوں کو مذہبی رنگ میں رنگنے کی روش بھی غیر حقیقی اور غیر اخلاقی ہے۔
اس غلط روش نے ہی "ہندی، ہندو، ہندوستان" جیسے منفی عمل کو جنم دیا جس کے نتیجے میں ہندی اردو تنازع پیدا ہوا اور یہ غلط سوچ پروان چڑھی کہ ہندی ہندوؤں کی اور اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس سوچ کے حامل تعصب پسندوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ ہندی بھاشا کی بڑھ چڑھ کر سیوا کرنے والے نابغہ روزگار امیر خسرو، عبدالرحیم خان خاناں، انشا اللہ خان انشا، رس خان اور "پدماوت" جیسی لافانی ہندی تخلیقات کے خالق مسلمان نہ تھے؟ کیا عبدالرحیم خان خاناں کی اعانت اور حوصلہ افزائی کے بغیر عظیم ہندی کوی تلسی داس کے لیے رامائن کو ہندی بھاشا کے قالب میں ڈھالنا ممکن تھا؟ اسی طرح تعصب کی عینک سے دیکھنے والے مسلمانوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دینے والے رام بابو سکسینہ، دیا نارائن، منشی پریم چند، رتن ناتھ سرشار، دیا شنکر نسیم، رگھوپتی سہائے، فراق گورکھ پوری، کرشن چندر، تلوک چند محروم، جگن ناتھ آزاد، گوپی ناتھ امن، رام لعل، کنہیا لال کپور، گوپال متل اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ وغیرہ ہندو دھرم کے پیروکار نہیں ہیں؟ اگر انھیں اردو کی بے لوث اور بے مثال خدمات انجام دینے والوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے تو پھر اور کیا باقی رہ جائے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اس طویل فہرست میں بہت سے نام شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔
زبان کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے سنگین نتائج ہمارے سامنے اردو اور بنگالی زبان کو متنازعہ بنانے کی پاداش میں 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا اور پھر 3 جولائی 1972 کو سندھ کی صوبائی اسمبلی کی جانب سے متنازعہ لسانی بل کی منظوری کے نتیجے میں لسانی فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے اور بہت سی قیمتی جانیں ان خوفناک شعلوں کی بھینٹ چڑھ کر بھسم ہوگئیں۔ وطن عزیز کی سلامتی کا تقاضا بے زبانوں کو سیاسی مفادات کی نذر کرنے سے گریز کیا جائے۔ خیال رہے کہ زبانیں رابطے کا پُل ہیں۔