Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Shereen Haider/
  3. Acha Kya Hai Naye Saal Mein?

Acha Kya Hai Naye Saal Mein?

کیا ہوتا ہے نئے سال میں، سال کا آخری نمبر تبدیل ہوتا ہے، فقط ڈائری بدلتی ہے، جنتری اور کیلنڈر نئے آ جاتے ہیں ? لیکن اب چند برسوں سے تو وہ بھی نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں سے آپ جنتری کے استعمال کی بابت پوچھیں تو انھیں علم نہیں ہو گا۔ ڈائری تو وہ پھر بھی اسکول میں روزمرہ کا کام لکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر کیلنڈر کا سن کر انھیں شاید عجیب لگے۔

ہم ان کے جیسی عمروں میں تھے تو سال شروع ہونے سے پہلے ہی نئی ڈائری لے لیتے اور نہ صرف اپنے ڈیسک بلکہ مختلف کمروں میں آویزاں کرنے کے لیے خوبصورت کیلنڈر خریدا کرتے تھے۔ اچھے کیلنڈر اور ڈائریاں، اپنے پیاروں اور دوستوں کے لیے نئے سال کابہترین تحفہ ہوتے تھے۔ چند دہائیوں سے، اسمارٹ فون کی ایجاد نے ہماری زندگیوں سے کئی چیزوں کو منہا کردیا ہے، گھڑیاں، کیلنڈر اور ڈائریاں ان میں سے سر فہرست ہیں۔

نیا برس اب کے بھی تضادات کے ساتھ شروع ہوا، غریب کی کٹیا میں ایک بلب بھی رات کو جلانا عیاشی کے زمرے میں آتا ہے اور امیروں کو خوش کرنے کے لیے دھماکے دارآتش بازی سے نئے برس کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ان دھماکوں کی آوازیں ہمارے ضمیروں کی آوازوں کو دبا دیتی ہیں اور ان سے بقعہ نور ہونے والا آسمان ? زمینی خداؤں کے پیدا کردہ تضادات کو کھل کر دیکھتا ہے۔ ایک طرف نئے سال کے آغاز کی تقریبات کا غوغا ہوتا ہے اور دوسری طرف ایک مضبوط مخالف گروہ ایسا بھی ہے جو کہ نئے سال کے انعقاد کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ ان کے خیال میں یکم جنوری سے آغاز ہونے والا برس غیر اسلامی ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اگر آپ ان سے معمول میں تاریخ پوچھیں تو وہ اسی سال کے حساب سے بتائیں گے۔

ہم ایک دوسرے کو نیا سال شروع ہونے کی مبارک باد بھی دے رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف اپنے لیے نئے سال کے لیے قراردادیں اور لائحہ عمل طے کر رہے ہوتے ہیں۔ خود سے وہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں، جو ہر سال طے ہوتے اور ٹوٹتے ہیں۔ سال شروع ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں کیسے گزر جاتا ہے، ا س کا علم ہی نہیں ہوتا، وقت میں انتہا کی بے برکتی ہو گئی ہے۔ دن اور ہفتے، سیکنڈوں اور منٹوں کی طرح گزرتے ہیں۔ نہ ہمارے پاس اپنے لیے وقت ہے نہ دوسروں کے لیے، جب بھی کہا جائے کہ فلاں کام کر لو، کسی کی عیادت کر لو، دوستوں اور عزیزوں سے ملاقات کر لو، کسی کی دل جوئی کے لیے وقت نکالو? تو ہمارے پاس سیدھا اور صاف جواب ہوتا ہے کہ وقت نہیں ملتا۔

وقت تو وہی ہے نا جو کہ ازل سے تھا، ہر دن اور رات ملا کر چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے مگر اب اس کی تقسیم مختلف ہو گئی ہے کہ پہلے جو وقت کام کا ہوتا تھا، اب اس کا بیشتر حصہ لوگ سو کر گزار دیتے ہیں اور آرام کے وقت پر کھیل تماشوں میں وقت صرف ہوتا ہے۔ اپنے ٹیلی فونز پرگھنٹوں اپنی دنیا میں مگن رہنے والوں لوگوں کے لیے کسی کو دینے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ وقت تو وہی ہے اور اتنا ہی ہے، مگر اسے کہہ کہہ کر ہم نے بے برکت کر دیا ہے کہ وقت نہیں ہے۔

اسکول جانیوالوں کے پاس اپنی پڑھائی اورا سکول کے بعد کی مصروفیات کا انبار ہے، کھیل، قرآن کلاسز، سوئمنگ، فلاں کلب، دوستوں کے ساتھ مختلف پارٹیاں۔ کالج جانے والوں کی اور بھی زیادہ مصروفیات ہیں، ان کے پاس گھر سے کالج اور پھر کالج سے ہی ٹیوشنز اور دیگر مصروفیات کے بعد کہاں وقت بچتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو بھی شکل دکھا سکیں۔ والدین کہیں کہ چار پل ہمارے پاس بھی بیٹھو تو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی کہاں ہے۔ یہی تو ہونا ہے کہ ان کے والدین کے پاس بھی اس وقت وقت نہیں تھا جب ان کے بچے چھوٹے اور والدین ضعیف ہو رہے تھے? بچوں نے انھی سے تو سیکھنا ہے۔

دن بھی اتنا ہی لمبا ہوتا ہے اور رات بھی۔ اسی طوالت کے دنوں میں پہلے بھی پورا خاندان ایک دوسرے سے رابطے میں رہتا تھا، فجر کی اذان کے ساتھ، نور کے تڑکے تک گھر کے بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کا دن آغازہو جاتا تھا۔ لگ بھگ ایک ہی وقت میں سب کا ناشتہ اور گھروں سے اسکولوں، کالجوں اور دفاتر کے لیے روانگی ہوتی تھی۔ گھر پر رہنے والوں کا اپنا ایک حلقۂ احباب ہوتا تھا جن سے ان کی ہر روز کی ملاقات معمول ہوتی تھی۔ عورتوں کا بھی آپس میں رابطہ اور ملاقات رہتی تھی۔ دوستوں اور احباب میں ہر کسی کی بیماری، دکھ اور خوشی میں سب کی شمولیت لازمی ہوتی تھی، بندے کو بندے کا دارو سمجھا جاتا تھا۔

پھر وقت بدلا اور ہم سب کے ہاتھوں میں فون آگئے? سادہ فون تک بھی کچھ خیریت رہی مگر اسمارٹ فون نے تو زندگیوں اور تعلقات کے رخ بدل دیے ہیں۔ دنیا کو گلوبل ولیج کہا جاتا ہے کہ سمٹ گئی ہے، فاصلے کم ہو گئے ہیں مگر دلوں میں فاصلے کتنے بڑھ گئے ہیں۔ ہم اپنے فون میں گم ہو کر اپنے ارد گرد کے ماحول سے منقطع ہو جاتے ہیں، ہمارے پاس بیٹھا شخص ہم سے کیا کہہ رہا ہوتا ہے، ہمیں علم نہیں ہوتا۔

ہر آنے والا دن اسمارٹ فون پر ایک نیا نشہ لے کر آتا ہے اور ہم ان نشوں کے اتنے عادی ہیں کہ بار بار اپنے فون کو کھول کر دیکھتے ہیں کہ کہیں کچھ مس نہ ہوجائے۔ اپنا کھانا کھانا اہم نہیں ہوتا جتنا اہم اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگا کر دوسروں کو بتانا اور جتانا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اور دیگرپیاروں کے بارے میں ان کی زبانی نہیں بلکہ فیس بک، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ Facebook، Instagram and snapchat اور دیگر میڈیا ایپ سے علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

ہمارے نئے سال کے عہد ہر سال پورے نہیں ہوپاتے اور ہم سال کے آخری دن کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، کیونکہ ہم خود سے ایسے وعدے کرتے ہیں جو مشکل اہداف پر مبنی ہوتے ہیں۔ وزن کم کرنا ہے، دنیا کی سیر کرنی ہے، غریبوں کی مدد کرنی ہے، پہاڑ سر کرنا ہیں، ہر ماہ ایک کتاب پڑھنی ہے، مہینے میں ایک بار دوسروں کی فلاح کے کسی منصوبے پر کام کرنا ہے، کم گوشت کھانا ہے، اپنے مزاج میں تحمل پیدا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ (یہ چند وعدے میرے اپنے اور میری دوستوں کے پچھلے چند برسوں کے خود سے کیے گئے عہد ہیں)

سال گزر جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں ان میں سے چند وعدوں پر عمل شروع کرنے کا بھی وقت نہیں ملا، بلامبالغہ میری ایک دوست کہتی ہے کہ اسے کئی کئی دن آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ (اس کے whatsappپر چوبیسوں گھنٹے نت نئے پیغامات موصول ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس کے سامنے جدید یا قدیم، دنیا کی کسی فلم کا تذکرہ کریں، Netflix کے کسی season یا شو کا ذکر کریں یا پاکستانی درجنوں چینلز کے کسی بھی ڈرامے کا نام لیں تو وہ ان میں ہر کسی پر سیر حاصل تبصرہ کر سکتی ہے۔ ان سب موضوعات پر اس کا علم بہت وسیع ہے کہ انھی سب کے باعث اسے آئینہ دیکھنے کا وقت نہیں ملتا)۔

وقت اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا بہتر استعمال کرنا ہماری مہارت کا نچوڑ ہے۔ چلیں اس بار، نئے سال کے آغاز پر خود سے عہد کریں کہ آپ اپنے وقت کو بہتر طور پر manage کریں گے اور ہر روز کم ازکم ایک گھنٹہ اس وقت میں سے دوسروں کے لیے وقف کریں گے۔ رات سونے سے پہلے چند منٹ خو د کو دیں اور ان چند منٹوں میں اپنا محاسبہ کریں، خود سے سوال کریں کہ اس روز آپ نے اپنا وقت کہاں کہاں مثبت استعمال کیا اور کہاں برباد کیا۔ ہاں، اپنے ٹیلی فون کے استعمال کے وقت کو بھی گھٹائیں تا کہ آپ کے پاس دن میں ایک بار اچھی طرح آئینہ دیکھنے کا وقت بھی نکل سکے۔

اللہ کرے کہ نیا سال آپ کے لیے مبارک ہو، آپ کے سارے خواب پورے ہوں، آپ کو صحت کامل نصیب ہو اور آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بہتری کے لیے بھی کام کر سکیں۔ بالخصوص کورونا وائرس کے خاتمے کی دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں معاف فرما کر ہم سب پر سے اس عذاب کو ہٹا لے۔ آمین

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran