آئین ہر پاکستانی شہری کو برابر کے حقوق دیتا ہے لیکن اسی ملک میں اشرافیہ کے ایسے کلب موجود ہیں جو الگ ہی ریاست محسوس ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں ایسی خوفناک باتیں سامنے آئیں جس نے ہلا کر رکھ دیا۔ اشرافیہ کے کلبز کو دی جانے والی سہولیات ایسی خوفناک ہیں کہ پنجاب اسمبلی بھی اس کے خلاف چیخ اٹھی۔ اندازہ لگائیں کہ لاہور کا معروف جمخانہ کلب ماہانہ 417 روپے لیز پر ہے۔
گزشتہ دنوں یہ معاملہ پنجاب اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا تو اس پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر آ گئے۔ یہ سب میڈیا کے سامنے نہ آتا اگر پنجاب اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے چیئرمین سمیع اللہ خان تاریخ ساز اقدامات نہ کرتے۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار سپیشل کمیٹی کی میٹنگ کو میڈیا کے لیے اوپن کیا تو پہلی بار میڈیا کو آفیشل طور پر اس کمیٹی کی کارروائی سننے کا موقع ملا۔
اس سے پہلے قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں تو میڈیا جاتا تھا لیکن پنجاب اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یقینا اس معاملہ میں سمیع اللہ خان کو دباؤ کا بھی سامنا ہوگا۔ ممکن ہے بہت سے اراکین نے بھی انہیں کہا ہو کہ یہ "کٹا" نہ کھولیں کیونکہ یہاں تو کئی سکینڈل سامنے آتے ہیں لیکن شفافیت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے چیئرمین سمیع اللہ خان نے سارے معاملات میڈیا کے سامنے ڈسکس کرنے کے لیے میڈیا کے لیے ہاؤس اوپن کرا دیا۔ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جس کے ہاتھ صاف ہوں اور اس نے کسی کو رعایتی نمبر نہ دینے ہوں۔ اس پہلے اوپن ہاؤس اجلاس میں ہی کمیٹی نے لاہور مال روڈ پر قائم معروف اور بڑے کلب کی لیز کا معاملہ اوپن کر دیا۔
دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان بھی متحرک نظر آ رہے ہیں۔ ایک اہم انکشاف یہ ہوا کہ پنجاب اسمبلی میں گذشتہ آٹھ سال سے پرنسپلز آف پالیسی کی رپورٹس پیش نہیں ہوئیں۔ یہ معاملہ سامنے آتے ہی سپیکر بھی آؤٹ آف کنٹرول ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ پرنسپلز آف پالیسی پر عمل درآمد کی رپورٹ نہیں ہیں تو یہ آئینی بحران ہے۔ ان کا کہنا بھی درست ہے کہ مختلف پالیسیز کے حوالے سے حکومت کی رپورٹس آٹھ سال سے ایوان میں ہی نہیں آئیں تو گزشتہ آٹھ سال میں کیا چلتا رہا ہے جہاں تک جمخانہ کلب کا معاملہ ہے تو اس سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں رانا آفتاب احمد، رانا شہباز، امجد علی جاوید، رانا ارشد، سید حیدر علی گیلانی، پیر اشرف رسول سمیت دیگر ممبران شریک ہوئے تھے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بظاہر لگ رہا ہے ملکی اشرافیہ و ریاست کا گٹھ جوڑ کسی ایک حکومت کی داستان نہیں۔ اشرافیہ ملک پر قابض ہے اور جمخانہ کلب کی لیز اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور شہر میں ستر سال سے جمخانہ کلب کے نام پر ریاست کو زمین و وسائل سے محروم کرنے کیلئے جو کچھ کیا جاتا رہا وہ حیران کن ہے۔ جہاں میرٹ ہوگا وہاں سپورٹ کریں گے جہاں چیزیں کھل کر سامنے آئیں گی تو اسے بھی روکیں گے۔ اس موقع پر ملک عبد الوحید ممبر بورڈ آف ریونیو کالونیز نے جمخانہ کلب کے متعلق پالیسی پڑھ کر سنائی۔
سیکرٹری قانون آصف بلال لودھی نے بتایا کہ انڈین کمپنی ایکٹ کے تحت جمخانہ رجسٹرڈ تھا اور معاہدہ 1913 میں کیا گیا، 1916 میں 1600 روپے رینٹ کر دیا گیا تھا۔ 1960 میں سابقہ قوانین کی تحت 1600 روپے کے عوض 2016 تک معاہدہ کر دیا گیا تھا۔ دوسری جانب جمخانہ کلب کی انتظامیہ نے جواب دیا کہ جمخانہ کلب پرائیویٹ ہے اور ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہے اس لیے کسی کو جواب دہ نہیں۔
معاملہ اتنا گرم ہوگیا کہ مہوش سلطانہ نے اپنی ممبر شپ چھوڑنے کا عندیہ دے دیا انہوں نے کہا کہ میں جمخانہ کی ممبر ہوں لیکن میری ممبر شپ ریاست سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ اگر ریاست کیلئے ممبر شپ چھوڑنا بھی پڑی تو اس سے گریز نہیں کروں گی۔ اسی طرح پیر اشرف رسول نے مطالبہ کیا کہ جمخانہ کلب کا رینٹ تاوان کے ساتھ وصول کیا جائے۔ رانا ارشد نے بھی سوال اٹھا دیا کہ عام پاکستانی کیوں جمخانہ کلب کا ممبر نہیں بن سکتا۔ گریڈ 20 اور 21 کا افسر ہی ممبر کیوں بن سکتا ہے؟ اپوزیشن رکن رانا عبدالمنان نے بتایا کہ اس زمین کی مالیت 40 کھرب روپے بنتی ہے۔
علی حیدر گیلانی بھی چپ نہ رہے انہوں نے کہا اہم بات یہ ہے کہ جمخانہ کلب کتنا رینٹ دے رہا ہے اور مارکیٹ ویلیو کے مطابق جمخانہ کلب کا کتنا کرایہ بنتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمخانہ کلب جب سے بنا ہے اس وقت سے اب تک اس کا آڈٹ نہیں کرایا گیا۔ یہ کلب پبلک اکاؤنس کمیٹی کو آڈٹ کرانے سے انکار کرتا ہے۔ جس پر اپوزیشن رکن رانا شہباز نے کہا جب سیکرٹری سمیت بڑے لوگ جمخانہ کلب کے ممبر ہوں گے تو پھر کون آڈٹ کرائے گا، اس اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 1913 میں جمخانہ پہلے گورنر ہائوس کے سامنے تھا اس کی ساری تفصیلات محکمہ سامنے لائیں، سمیع اللہ خان نے تمام متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز کو بھی طلب کر لیا تا کہ صورت حال واضح ہو۔
دوسری جانب معاملہ جم خانہ تک ہی نہیں رہا بلکہ اپوزیشن رکن رانا آفتاب احمد نے فیصل آباد میں چناب کلب پر بھی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ چناب کلب کی ممبر شپ ایک کروڑ روپے ہے جبکہ آڈٹ رپورٹس کے مطابق 18 کروڑ 16 لاکھ روپے سے زائد انکم ٹیکس بنتا ہے جو ادا ہی نہیں کیا گیا۔ فیصل آباد میں ڈی سی یا کمشنر بھی جمخانہ کے سربراہ بن جاتے ہیں تو قانون پر عمل درآمد ہی نہیں ہوتا۔ کمیٹی کے چیئرمین سمیع اللہ خان نے کہا کہ لاہور کی ایک کنال کی لیز پچاس پیسے پر ہے اسے منطقی انجام تک آئین و قانون کے مطابق پہنچائیں گے۔
یہ بھی انکشاف ہوا کہ لاہور میں 960 کنال کی پانچ ہزار سال کیلئے لیز دی گئی ایک لیز پانچ روپے ماہانہ اور ایک کینال کی لیز 50 پیسے بنتی ہے جو انتہائی حیران کن ہے۔ سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں بتایا جا رہا تھا کہ اس ملک کے وسائل اشرافیہ نے کیسے لوٹے۔ میں سوچ رہا تھا کہ طاقتور طبقہ نے کس طرح امیر اور غریب کے لیے الگ الگ ملک بنا رکھا ہے۔ عام مزدور کے لیے قبر کی جگہ بھی میسر نہیں ہے تو دوسری جانب اشرافیہ ہر قانون سے بالاتر ہے۔
یہ کہانی بیوروکریسی، سیاست دانوں اور دیگر اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کی ہے جو پنجاب اسمبلی سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں کھلی۔ اگر سمیع اللہ خان ڈٹے رہے تو ایسی کئی کہانیاں عوام تک پہنچیں گی۔ وہ صاحب اقتدار ہیں، امید ہے کہ وہ عام آدمی کا حق اسے دلوانے میں کامیاب ہوں گے۔