حیدر سلطان کے ڈیرے پر احساس ہوا سیاست آسان کام نہیں ہے۔ ہم چکوال کے ایم پی اے حیدر سلطان کے ڈیرے پر تھے جہاں دوپہر کے وقت لوگوں کا ہجوم دیکھ کر الیکشن کمپین کا سا تاثر مل رہا تھا۔ حلقہ کے لوگوں اپنے اپنے مسائل لیے آ رہے تھے اور مختلف ٹولیاں بنا کر بیٹھے تھے۔ رکن اسمبلی ایک ایک کے پاس جا کر اس کا مسئلہ سنتے، اپنے پی اے کو نوٹ کراتے اور سائل کو اپنا موبائل نمبر نوٹ کراتے جاتے کہ اگر کام نہ ہوا تو مجھے کال کرکے بتانا۔ یونین کونسل کے نمائندے اور معززین علاقہ الگ سے اپنی اپنی یونین کے مسائل کی فہرست لیے بیٹھے تھے۔
دوپہر ہونے تک رکن اسمبلی کے چہرے پر تھکاوٹ نمایاں تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ رات سے یہی سب چل رہا ہے لیکن ڈیرہ داری کا نظام یہ سب نہیں دیکھتا۔ معلوم ہوا حیدر سلطان چکوال میں ہوں تو ان کا سارا دن ایسے ہی گزرتا ہے۔ مجھے اچھا لگا کہ عوامی نمائندے کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اسمبلی کا اجلاس نہ ہو تو اپنے علاقے کے لوگوں میں رہنا چاہیے۔ یہاں تو کئی لوگ پانچ سال علاقے میں قدم ہی نہیں رکھتے۔ چکوال اور تلہ کنگ میں سڑکوں کی تعمیر سمیت دیگر کام نظر آ رہے تھے۔ بعض جگہوں پر سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے ہمیں جاتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن خوشی ہوئی کہ مارشل قوم کے حوالے سے پہچانے جانے والے علاقوں میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں۔
یہ پنجاب کی سیاست کا وہ چہرہ ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں۔ عوامی نمائندہ عوام سے کٹ جائے تو اس کی سیاست تباہ ہو جاتی ہے اور پھر الیکشن کے اگلے روز اخبارات میں سرخی چھپتی ہے کہ سیاست کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ یہ برج اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے الٹتے ہیں۔ خود کو حاکم سمجھ کر اپنی جڑوں سے کٹ جانے والوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
ہم بظاہر جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن پاکستان کی جمہوریت ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریت سے مختلف ہے۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ اراکین اسمبلی سے قانون سازی کا کام لیا جائے اور علاقائی ترقیاتی کاموں کی جواب دہی بلدیاتی نمائندوں سے لی جائے۔ بدقسمتی سے یہاں ابھی بلدیاتی نظام اتنا مضبوط نہیں ہے کہ بلدیاتی نمائندے، ناظم اور کونسلرز یہ سارا بوجھ اٹھا سکیں۔ عوام بھی اس کا ذمہ دار رکن اسمبلی کو ہی سمجھتے ہیں۔
ہمارے یہاں رکن اسمبلی ہی اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کراتا ہے، ترقیاتی بجٹ لیتا ہے اور کام کراتا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو عوامی حمایت کھو دیتا ہے۔ اسے ہر خوشی، غمی، شادی اور فوتگی میں بھی شریک ہونا ہوتا ہے۔ پنجاب بھر میں سیاست دانوں کے ڈیرے موجود ہیں۔ یہ سیاست دان الیکشن جیتیں یا ہاریں لیکن ڈیرے آباد رہتے ہیں۔ علاقہ کے لوگ اپنے مسائل لے کر انہی کے پاس پہنچتے ہیں اور اکثر ان کی وجہ سے بات تھانے کچہری تک پہنچنے سے پہلے ہی حل ہو جاتی ہے۔
ہمارے یہاں الیکٹ ایبلز کی اصطلاح بھی بہت معروف ہے۔ ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہر صورت الیکشن جیت جاتے ہیں اس لیے سیاسی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے ان کو اپنے ساتھ ملاتی ہیں، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ الیکٹ ایبلز زیادہ سے زیادہ ترقیاتی بجٹ منظور کرا لیتے ہیں۔ میں نے اس سارے معاملے پر بہت غور کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ بیلٹ باکس میں سب سے زبردستی ووٹ نہیں ڈلوایا جا سکتا۔
بدمعاشی، دہشت اور رعب بیلٹ باکس کے باہر تک ہی ہوتا ہے۔ اگر لوگ الیکٹ ایبلز کو جتواتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی تو وجہ ہوگی۔ چکوال کے ایم پی اے کے ڈیرے پر یہ بات مزید واضح ہوگئی۔ بڑے شہروں کے سیاست دانوں کے یہاں عوامی ملاقاتوں کا سلسلہ کم ہے جبکہ الیکٹ ایبلز اپنے دھرتی اور لوگوں سے جڑے رہتے ہیں۔
یہ اپنے علاقوں کے لیے زیادہ سے زیادہ بجٹ حاصل کرتے ہیں، سڑکیں، سکول، ہسپتال اور دیگر سہولیات مہیا کرتے ہیں، لوگوں کی ایک فون کال پر ان تک پہنچتے ہیں، ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں اور جب اپنے حلقہ میں ہوں تو ان کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسلسل الیکشن جیتتے ہیں اور ملکی سیاست میں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی اپروچ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ چکوال کے قریب راولپنڈی اور اسلام آباد ہے جس کی وجہ سے بڑے شاپنگ مالز جڑواں شہروں میں ہیں۔
لوگ چکوال کے بجائے چند کلومیٹر دور جڑواں شہر میں انویسٹمنٹ کرنا بہتر سمجھتے ہیں جبکہ ایم پی اے حیدر سلطان نے چکوال میں جدید شاپنگ مال بنانا شروع کر دیا تاکہ ان کے حلقہ کے لوگ اپنے علاقے میں سہولیات سے مستفید ہوں۔ مجھے کچھ وقت ان کے ڈیرے پر گزارنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ایسے شخص کو وزارت ملنی چاہیے کیونکہ وزارتیں متحرک لوگوں کو ملیں گی تو محکمے بھی متحرک ہوں گے۔
مریم نواز نے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے ساتھ ہی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ وہ خود بھی انتہائی متحرک ہیں۔ اس سے پہلے لگتا تھا کہ شہباز سپیڈ کے بعد اتنی سپیڈ ممکن نہیں تھی لیکن وزیراعلی مریم نواز نے انتہائی مختصر وقت میں ایک نئی مثال قائم کر دی ہے۔ اس سپیڈ کو مزید بڑھانے اور کاموں کو تیزی سے مکمل کرانے کے لیے انہیں اپنی ٹیم میں ایسے اراکین اسمبلی کو متحرک کرنا ہوگا جو عوامی خدمت کے لیے اپنی پرسنل زندگی ایک طرف کر چکے ہیں۔ چکوال کے حیدر سلطان جیسے لوگ اس ٹیم میں ہونے چاہیے جو دن رات عوام کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔