Thursday, 21 November 2024
  1. Home/
  2. Syed Badar Saeed/
  3. Bijli 20 Rupay Unit Mumkin Hai

Bijli 20 Rupay Unit Mumkin Hai

اب بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی والی بات ختم ہونی چاہیے۔ یہ معاملہ بڑے یا چھوٹے نہیں بلکہ صرف بھائیوں کے درمیان ہے۔ اگر چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو صرف اس وجہ سے نہیں رکتا کہ وہ چھوٹا ہے اور بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی مدد کرے تو یہ بھی احسان نہیں ہے۔ گھر تبھی بچتے ہیں جب سب بھائی ساتھ ہوں۔ ہمارے یہاں تو جوائنٹ فیملی کا کلچر ہی اتنا شاندار ہے کہ تین چار بھائیوں میں سے کوئی ایک بے روزگار ہو جائے تب بھی اس کا کچن چلتا رہتا ہے۔ مجھے اچھا لگا جب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ بھائیوں کا معاملہ ہے جو ہمارے پاس ہے اس کا فائدہ پورے ملک کو ہونا چاہیے جس کام میں پنجاب ہم سے آگے ہے، اس میں ہمیں پنجاب کی سپورٹ ملے تا کہ ہمارے عوام کو فائدہ ہو۔

لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کی قیادت میں پریس کلب کا ایک وفد سندھ کے دورے پر تھا۔ پریس کلب کے منتخب عہدے دار کی حیثیت سے میں اس وفد میں شامل تھا۔ وزیر اطلاعات شرجیل میمن اس حوالے سے بہت متحرک ہیں، وہ چاہ رہے تھے کہ کم وقت میں بھی پنجاب سے آئے صحافیوں کو زیادہ سے زیادہ پراجیکٹس دکھائے جا سکیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وفد دو دن مزید سندھ میں رُکے تا کہ وہ ہمیں مزید پراجیکٹس دکھا سکیں۔ سیکرٹری اطلاعات ندیم میمن بھی بھرپور متحرک نظر آئے۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ظہرانے کا اہتمام کیا اور ہمارے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ وہ مکمل تیاری کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے پروجیکٹر پر سندھ حکومت کے پراجیکٹ دکھائے اور تفصیل سے بتایا۔ اس دورے کے دوران سندھ کے حوالے سے کئی ابہام دور ہوئے۔

وزیراعلیٰ سندھ پاکستانیت کی بات کرتے رہے۔ انہوں نے پنجاب کی صنعتوں کو بچانے اور اضافی بجلی کھپانے کے لیے ایک اہم تجویز دی۔ انہوں نے کہا ہم تھر کے کوئلے سے پورے ملک کیلیے سستی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ تھر کا کوئلہ اگلے دو سو سال کے لیے کافی ہے۔ ہم اس وقت تھر سے 3 ہزار میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں جو نیشنل گرڈ میں شامل ہو کر سیدھا فیصل آباد جاتی ہے۔ وہ بجلی سندھ استعمال نہیں کر رہا۔ ہم اپنی پیدا کردہ گیس بھی استعمال نہیں کر رہے حالانکہ آئین میں لکھا ہے کہ قدرتی وسائل پر سب سے پہلے متعلقہ صوبے کا حق ہے۔

سندھ حکومت نے 2014 میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی بنائی، کمپنی نے نوری آباد تا کراچی بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی، اب ہم نے بجلی بنانے کی کمپنی بنائی ہے، اب سندھ حکومت خود ٹیرف مقرر کرے گی۔ انہوں نے ایک اہم بات کی کہ ایک طرف ہم چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں دوسری طرف ہماری ضرورت 30 ہزار میگاواٹ ہے۔ اضافی دس ہزار کے پیسے ہم عوام سے وصول کر رہے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ پنجاب میں جو فیکٹریاں آٹھ گھنٹے کی ایک شفٹ چلا رہی ہیں، ان کو دوسری شفٹ چلانے کی ہدایت کی جائے اور دوسری شفٹ کیلئے بجلی کم نرخوں پر فراہم کی جائے۔ ہم بجلی کو سستا کرینگے تو ڈیمانڈ بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے صنعتی ترقی کی روشنی میں دیکھنا ہونگے۔ تھر کے کوئلے سے پورے ملک کیلئے سستی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے پنجاب کی چھوٹی صنعتوں کے ماڈل کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب نے چھوٹے شہروں میں بھی چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائی ہیں، یہ بہترین ماڈل ہے، سندھ حکومت بھی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دے رہی ہے، ہم تھر میں انجینئرنگ یونیورسٹی قائم کر رہے ہیں تاکہ بچے ٹیکنیکل ڈگری حاصل کرکے وہاں نوکری کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پیشنگوئی کی کہ 40 سال بعد تھر کراچی سے بڑا شہر ہوگا۔

مجھے یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ ان سے ملاقات سے پہلے ہم تھر گئے تھے۔ ہمارے ذہن میں تھر کا وہی امیج تھا جو نیشنل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ جہاں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ جاتی ہے، پینے کا پانی ہے نہ روزگار اور نہ ہی علاج معالجہ کی سہولت ہے لیکن جب ہم تھرپارکر پہنچے تو وہاں ایک نئی دنیا آباد تھی۔ ہم نے تھر میں مائی بختاور ایئرپورٹ دیکھا، وہاں کوئلے سے بجلی بنانے کا جدید پاور پلانٹ تھا، سڑکوں کا انفراسٹرکچر بہترین تھا۔ مٹھی جیسے علاقے میں جدید کارڈیالوجی ہسپتال تھا۔ یہ سب ایک نئی دنیا تھی۔

ہمیں وہ تھر نظر نہیں آیا جو ٹی وی چینلز کی "فائل ویڈیو" میں ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے نہ صرف یہ کہ تھر کی حالت بدل دی ہے بلکہ وہاں"تھر بدلے گا پاکستان" کا نعرہ بھی لگا دیا ہے۔ اسی طرح سندھ میں ہسپتالوں پر بہت کام ہو رہا ہے۔ ہم نے کراچی میں سائبر نائف کا دورہ کیا اور مریضوں کا علاج ہوتے دیکھا۔ پوری دنیا میں لیزر سے کینسر کے علاج کی یہ ربورٹک مشنری دس جگہ ہے جن میں سے ایک پاکستان کے شہر کراچی میں ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ پوری دنیا میں صرف کراچی واحد جگہ ہے جہاں کروڑوں روپے کا یہ علاج مفت ہوتا ہے۔ اب یہاں تیسرا سائبر نائف روبوٹ منگوا لیا گیا ہے۔

کینسر کے مریض چند گھنٹوں سے 5 دن میں ٹھیک ہو رہے ہیں اور مشین سے اٹھ کر اپنے پاؤں پر چلتے ہوئے گھر جا رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ سائبر نائف پر ریکوری 99 فیصد ہے۔ سندھ حکومت کینسر کے علاج میں شوکت خانم کو بہت پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ یہ مشینری شوکت خانم میں بھی نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان کا واحد فری ٹراما سنٹر بھی کراچی میں ہے جہاں حادثات کا شکار ہونے والوں کو ٹراما سے نکالا جاتا ہے۔ سندھ حکومت نے ہیلتھ انشورنس کے بجائے اپنے ہسپتالوں کو جدید اور فری کر رہی ہے۔

سندھ حکومت کا ایک بڑا منصوبہ 21 لاکھ گھروں کا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں 21 لاکھ گھر گر گئے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان سب کو گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا اور اب ان میں سے بھی کافی گھر بن چکے ہیں جبکہ باقی بن رہے ہیں۔ 21 لاکھ گھروں کا مطلب ہے کہ لگ بھگ سوا کروڑ آبادی کو چھت ملے گی۔ سندھ حکومت نے پنجاب سے بھی پراجیکٹ دیکھے اور انہیں مزید بہتر انداز میں شروع کر دیا۔ ریسکیو 1122 پنجاب میں شروع ہوا تھا۔ اب سندھ حکومت بھی اسے شروع کر چکی ہے۔

بریگیڈیئر طارق قادر اس پراجیکٹ کے سی ای او ہیں۔ انہوں نے اپنی ایمبولنس کو پنجاب کی 1122 سے زیادہ جدید بنا دیا۔ اب یہ ایمبولنس چلتا پھرتا منی آئی سی یو ہے۔ یہ مریض کو ہسپتال پہنچانے کے لیے ایمبولنس میں لٹاتے ہی آئی سی یو میں شفٹ کر دیتے ہیں اور یوں اس کی جان بچا لی جاتی ہے۔ اب ان کے مریض صرف اس وجہ سے نہیں مر رہے کہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے اسے طبی امداد نہیں ملی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں ریسکیو 1122 کی ایمبولنس کو بھی اسی طرح آپ گریڈ کرتے ہوئے منی آئی سی یو میں تبدیل کر دینا چاہیے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اس میں ذاتی دلچسپی لیں تو پنجاب کے عوام کے لیے یہ بڑا تحفہ ہوگا۔ اسی طرح اگر وفاق اور پنجاب سندھ حکومت کے ساتھ تھرکول پراجیکٹ پر کھڑا ہو جائے تو بجلی 20 روپے یونٹ میں مل سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ پاکستانیت کی بات کر رہے ہیں تو مسلم لیگ ن کی پہچان بھی ہمیشہ پاکستانیت ہی رہی ہے۔ وفاق میں دونوں جماعتیں اتحادی بھی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جو پاکستانیوں کو مہنگائی کے عذاب سے نکال سکتا ہے۔ تھر کی سستی بجلی پنجاب کے مزدوروں کو خودکشی سے بچا سکتی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran