خبر کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ بات کچھ عرصہ کے لیے دبائی جا سکتی ہے لیکن چھپائی نہیں جا سکتی۔ اخبارات کے عروج کے زمانے میں بھی صحافی خبر کی تلاش میں ملک سے باہر سفر کرتے تھے، جنگوں کی رپورٹنگ سے لے کر عالمی سیاست تک کی خبروں کو اہمیت حاصل تھی، خود نئی بات کے ایڈیٹر نجم ولی خان اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرنے افغانستان گئے تھے۔ ٹی وی چینلز کی صحافت نے اس سلسلے کو مزید بڑھا دیا۔ صحافیوں کے بیرون ممالک دورے اور رپورٹنگ میں مزید تیزی آنے لگی۔
پرویز مشرف کے دور میں تو باقاعدہ لندن ڈیرے ڈال لیے گئے تھے کہ اس وقت پاکستانی سیاست کی بیٹھکیں لندن میں ہوتی تھیں۔ نواز شریف کی پاکستان آمد کے موقع پر بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ ساتھ نیو ٹی وی سے نصر اللہ ملک ان کے طیارے میں پاکستان آئے اور لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ہوئی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحافت اب کسی شہر، صوبے یا ملک تک محدود نہیں رہی، لاہور میں بیٹھا شخص فلسطین تک کے حالات جاننا چاہتا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے اس اپروچ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اب پوری دنیا آپ کے موبائل کی سکرین پر ہے۔ سکول کا طالب علم بھی ہر اس خبر سے آگاہ ہے جو آپ تک پہنچ رہی ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا ہماری صحافت کا اگلا پڑاؤ ہے، اب شفافیت کا امتحان یہاں ہوگا۔ یہ تو طے ہے کہ ہر وہ شخص صحافی نہیں جس کے پاس موبائل اور مائیک ہے کیونکہ صحافت ہمیشہ سے اپنے اصولوں پر کار بند رہی ہے۔ صحافی فیک نیوز کے خلاف رہے ہیں کیونکہ فیک نیوز ہی صحافت کی عزت اور ساکھ خراب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بیٹھے گیٹ کیپرز فیک نیوز کو فلٹر کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی خبر کو پبلک ہونے سے روک دیتے ہیں جو خبر کی تعریف پر پورا نہیں اترتی۔ مسئلہ سوشل
میڈیا کا ہے خاص طور پر ان یوٹیوب چینلز کا جن کے ٹائٹل ہر دوسرے دن آرمی چیف اور چیف جسٹس کو اڈیالہ پہنچا دیتے ہیں اور جیل کے دروازے کھول کر عمران خان کی فوری رہائی کی خبریں چلا دیتے ہیں۔ یہ کسی بھی طرح صحافت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بعض تحفظات کے باوجود ہتک عزت بل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صحافت کے نام پر کسی کی عزت اچھالنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ اب ڈیجیٹل میڈیا صحافت کا موجودہ پڑاؤ ہے، صحافی اور میڈیا ہاؤسز تیزی سے اس پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے جہاں قوانین و ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہے وہیں ٹریننگ سیشنز بھی بہت ضروری ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا نے دنیا بھر کے صحافیوں اور عوام کو قریب کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف ممالک کے ایسے گروپس بن چکے ہیں جہاں دو طرفہ کلچر اور رابطوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔
پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی ایسی کمیونٹی بن چکی ہے جو اپنے بزرگوں کی یادگاروں پر بات کر رہی ہے۔ مجھے ایسے ہی ایک گروپ میں موجود سکھ نوجوان نے باقاعدہ جالندھر ہمارے بزرگوں کے دربار اور گاؤں پر وی لاگ بنا کر بھیجا، یہی کام پاکستانی نوجوان کر رہے ہیں۔ یہاں سے ہجرت کرکے جانے والے ہندو اندرون لاہور کی ویڈیوز اور تصاویر منگواتے ہیں اور لائیو ویڈیو کالز پر ان گھروں کو دیکھتے ہیں جنہیں ان کے بزرگ چھوڑ کے گئے تھے اگلے روز بنگلہ دیش ہائی کمیشن اسلام آباد کے پریس قونصلر محمد طیب علی لاہور آئے تو پریس کلب بھی تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پہلی بار اپنی فیملی کے ساتھ لاہور آئے ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں کو بادشاہی مسجد دکھائی۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ تاریخی مساجد بھی اسلامی ممالک کے درمیان ایک مضبوط حوالہ ہیں۔ بنگلہ دیش ہائی کمیشن کے پریس قونصلر محمد طیب سے دو طرفہ صحافت اور دیگر معاملات پر بھی گفتگو ہوئی۔ ان سے یہ کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان صحافتی وفود کے تبادلے ہونے چاہیے۔ ٹریننگ ورکشاپس کے ساتھ ساتھ دو طرفہ کلچر، بزنس، ایجوکیشن اور دیگر معاملات میں بھی مواقع مہیا کرنے چاہیے۔ ان سے ریفیوجیز پر بھی بات ہوئی۔ یہی بات پریس کلب آنے والے دیگر ممالک کے سفیروں سے بھی کہی ہے۔
اگلے روز لاہور میں قائم فرنچ سنٹر کے ڈائریکٹر فیبرسئس ڈسڈائز بھی پریس کلب تشریف لائے تو ان سے بھی ڈیجیٹل دور میں صحافیوں کی کپیسٹی بلڈنگ اور گلوبل ویلیج میں ان کی دنیا بھر میں اپروچ کے حوالے سے بات ہوئی۔ انہوں نے لاہور پریس کلب میں فرنچ لینگویج کورس شروع کرنے کا بھی وعدہ کیا تاکہ صحافی کمیونٹی انٹرنیشنل زبانیں سیکھ سکے اور عالمی صحافت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ گزشتہ روز ہی چندی گڑھ پریس کلب سے بھارتی صحافیوں کا وفد بھی لاہور پریس کلب آیا تھا۔ ماضی میں لاہور پریس کلب سے بھی ایک وفد چندی گڑھ پریس کلب کا دورہ کر چکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈیجیٹل میڈیا جتنی تیزی سے جگہ بنا چکا ہے اس میں ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار اور صحافت کے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنی مدد آپ کے تحت شروع کی گئی اس جرنلزم سے نکال کر مین سٹریم میڈیا کا حصہ بنانا ہوگا، ان کی راہنمائی بھی کرنا ہوگی اور ان سے سیکھنا بھی ہوگا۔ صحافیوں کے وفود میں ان کو شامل کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کے ڈیجیٹل میڈیا کا معیار اور وقار دونوں بلند ہوں۔
لاہور پریس کلب اپنے ممبران کے لیے ڈیجیٹل سٹوڈیو بنا چکا ہے جہاں انٹرویوز اور پوڈ کاسٹ ریکارڈ ہو رہے ہیں لیکن ابھی ہمیں مزید ٹریننگ سیشنز کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس بے پناہ ٹیلنٹ ہے لیکن اس ٹیلنٹ کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لیے سینئرز کی راہنمائی بہت ضروری ہے ورنہ یہی ڈیجیٹل میڈیا شتر بے مہار بن کر ہماری ہی بدنامی کا باعث بنے گا۔