لاہور پریس کلب کے پروگرام "میٹ دا پریس" میں ایسا ماحول بن جاتا ہے کہ مہمان شخصیات کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔ گزشتہ روز سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان بھی لاہور پریس کلب میں میڈیا سے ملے اور انہوں نے اس نشست میں دل کی باتیں کیں۔
میں پریس کلب کے سٹیج پر ان کے ساتھ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ملک محمد احمد خان جس آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں وہ ہر پاکستانی کے دل کی بات ہے، ہر پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ یہاں جمہوری معاشرہ قائم ہو، ہر پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ یہاں عوام کی حکومت ہو، ہر پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود و قیود کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیں اور ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ اسے انصاف ملے، اسے تحفظ ملے اور اسے معاشرے میں وہ مقام ملے جو آئین اسے فراہم کرنے کا کہتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو ان کی سوچ ہی نہیں رویے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ حکمران جماعت کو اپوزیشن کا ہر احتجاج بے معانی لگتا ہے اور اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو بزور طاقت روکا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو اپنے احتجاج کو پُر تشدد کارروائیوں کی طرف منتقل کر دیتی ہیں۔ اسے ہمارے معاشرے کی بدقسمتی کہا جا سکتا ہے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے ماضی میں کی گئی اپنی جماعت کی کوتاہیوں اور خامیوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ماضی میں میری جماعت کے لوگوں نے عدلیہ پر حملہ کیا ہے تو میں اتنا ظرف رکھتا ہوں کہ اسے غلط کہوں۔ انہوں نے بعض آئینی فیصلوں میں کی گئی غلطیوں کا بھی اعتراف کیا اور اس بات پر بھی نالاں نظر آئے کہ ماضی میں مسلم لیگ ن یا مسلم لیگ ن کے اراکین ایسے فیصلے کر چکے ہیں جو آئینی اور قانونی طور پر درست نہیں تھے لیکن اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی جماعت کے غلط فیصلوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈائیلاگ تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان ہونے چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انتشار پسند لوگوں سے ڈائیلاگ کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں ہوتے حالانکہ ان کا حلیہ بھی شرعی ہے، داڑھی بھی ہے اور وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند بھی ہیں لیکن ان کی تشدد پسند کارروائیوں کے ساتھ ان سے ڈائیلاگ نہیں ہو سکتے اسی طرح ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو بھی پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کا احتجاج شر پسندانہ ہرگز نہیں ہوتا لیکن اب ماحول ایسا بن چکا ہے کہ میرا بیٹا اپنے گھر سے باہر نہیں جا سکتا، ہماری خواتین اس ڈر سے باہر نہیں جا سکتیں کہ باہر شر پسند لوگ موجود ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی سیاست جمہوری کلچر نہیں ہے۔ ملک محمد احمد خان بنیادی طور پر ویژنری سیاست دان ہیں جو دیہی کلچر کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے نیب کو بے ہودہ ادارہ قرار دیا اور اس کی وجہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فعال نہ ہونے کو قرار دیا۔
ایک اہم بات انہوں نے ایسی کی جس نے مجھے بھی چونکنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے کئی بار محسوس ہوا تھا کہ ہمارے اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کا قانون سازی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ اسمبلی میں کوئی رائے دیتے ہیں۔ اکثریت کو اسمبلی کے رولز تک کا علم نہیں ہوتا۔ اب سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایک ایسے اقدام کا بتایا ہے جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ کم از کم پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کا عمل مزید مضبوط ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سیاست دان کو آئین پر عبور ہونا چاہیے اس لیے اب اراکین اسمبلی کو بھی پارلیمانی نصاب پڑھنا پڑے گا جس کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں آئین، قوانین، رولز اور دیگر طریقہ کار سے متعلق ایک نصاب ترتیب دیا جا رہا ہے جس میں لمز اور پنجاب یونیورسٹی سمیت دیگر اداروں سے بھی معاونت حاصل کی گئی ہے۔ تمام اراکین اسمبلی کے لیے یہ نصاب لازمی قرار دیا جائے گا اور اس کے بعد ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جائے گا۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ باقاعدہ آئین اور اسمبلی رولز کو سمجھنے کے لیے اراکین اسمبلی کے لیے نہ صرف نصاب بن رہا ہے بلکہ ان کی کلاسز بھی ہوں گی۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اور بھی کئی باتیں کیں انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے میں عدلیہ کے کردار پر بھی تنقید کی انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ آئین سازی کرتی ہے عدلیہ کے پاس اس آئین کی تشریح کا اختیار ہے جبکہ ادارے اس پر عمل کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ساری چیزیں آپس میں مکس ہو چکی ہیں اور بعض ججز ماضی میں باقاعدہ آئین کو دوبارہ لکھتے رہے۔
مجھے دو باتیں زیادہ اہم لگیں ایک یہ کہ سپیکر پنجاب اسمبلی اپنی سیاسی جماعت کی پالیسیوں کا بے جا دفاع نہیں کر رہے تھے بلکہ جہاں جہاں مسلم لیگ ن نے غلط فیصلے کیے ان کا اعتراف کرتے ہوئے ان فیصلوں کو غلطی قرار دے رہے تھے۔ دوسرا اہم فیصلہ یہ تھا کہ انہوں نے اراکین اسمبلی کو آئین پڑھانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ یہ تاریخ ساز اقدام ہے اور اگر اسے حقیقت کا روپ مل جائے تو پارلیمانی سیاست مزید مضبوط ہوگی اور حقیقی معنوں میں اسمبلی میں عوامی فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جائیگا۔
اگر سی ایس پی آفیسر کو اے سی بنانے سے پہلے باقاعدہ ایک سال کا تربیتی کورس کرایا جاتا ہے تو پھر عوامی مینڈیٹ لے کر اسمبلی میں پہنچنے والے عوامی نمائندے کا تربیتی کورس کیوں نہیں ہوتا؟ ہمارے اراکین اسمبلی کو پارلیمانی اختیارات، حدود اور طریقہ کار کا ہی پتا چل جائے تو اتنا بھی کافی ہوگا۔