پاکستان بھر میں کرائم ڈیٹا مرتب کرتے وقت دیکھا جاتا ہے کہ کتنے جرائم رونما ہوئے اور اس کے مقابلے میں کتنے ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ پولیس جرم ہونے سے پہلے اس کے متوقع مجرم کو گرفتار نہیں کر سکتی۔ کوئی شخص اپنے گھر میں اپنے ہی کسی عزیز کو قتل کر دے تو پولیس اس قتل کو نہیں روک سکتی، جیب کٹنے سے پہلے ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سٹریٹ کریمنل کو بھی واردات سے پہلے ٹریس کرنا انتہائی مشکل ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ جرم رونما ہونے کے بعد کتنی دیر میں ملزم گرفتار کیا گیا۔
کراچی میں خاص طور پر سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنا بہت بڑا مسئلہ تھا لیکن اس بار کراچی گیا تو صدر کے مین بازار میں لوگوں کو روڈ سائیڈ موبائل استعمال کرتے دیکھا، انہیں دیکھ کر حوصلہ ملا تو خود بھی دو تین اہم فون کالز وہیں بیٹھ کر کیں۔ آئی جی سندھ نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر خاص طور پر کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے انتہائی خوبصورت سٹریٹیجی بنا لی ہے جس سے سٹریٹ کرائم میں کمی آئی ہے۔ ایسی سٹریٹیجی وہی فیلڈ کمانڈر بنا سکتے ہیں جو جرائم کی تہہ تک پہنچ چکے ہوں۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن دوسری بار سندھ کے آئی جی تعینات کیے گئے ہیں جو کہ سندھ حکومت کا ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اس سال اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد کراچی میں بڑھتے سٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے مکمل روڈ میپنگ کی اور کرائم پاکٹس کی نشاندہی کرکے لوٹی گئی اشیا کی کھپت کے مقامات کو مارک کیا۔ اس کے بعد ان پاکٹس کے گرد گھیرا تنگ کیا جہاں لوٹ کے مال کی کھپت ہو رہی تھی۔
یاد رہے کہ اس سال کراچی میں جنوری میں اسٹریٹ کرائم کے 254، فروری میں 252 اور مارچ میں 245 کیسز روزانہ کی بنیاد پر رجسٹر ہو رہے تھے جس پر آئی جی سندھ نے آتے ہی ایکشن لیا۔ انہوں نے انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں کے دوران معلوم کیا کہ کراچی میں تین ہزار کباڑیے کام کر رہے ہیں جن میں سے 354 کباڑیے چوری کے سامان کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں۔ انہوں نے پوری قوت سے ان 354 کباڑیوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے کارروائی کی اور 77 مقدمات درج کرکے گرفتاریاں عمل میں لائے۔ کئی کباڑیوں سے چوری کا سامان بھی برآمد کر لیا گیا۔ ان کارروائیوں سے چوروں اور سٹریٹ کرمینلز کو کافی دھچکا پہنچا اور ان کے مال کی خرید و فروخت کی مین سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ دوسری جانب سٹریٹ کرمینلز کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔
پنجاب میں بھی پولیس نے اہم تہواروں کے موقع پر یہی طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے اور اب اگلے ماہ چودہ اگست کے موقع پر بھی اسی پریکٹس پر عمل کیا جائے گا۔ آئی جی پنجاب کے حکم پر پنجاب پولیس نے ان موٹرسائیکل میکینکس کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا جو ہلڑ بازی اور ون ویلنگ کے لیے موٹرسائیکل تیار کرتے ہیں۔ موٹر سائیکل مکینک کی گرفتاریوں کا وہی فائدہ ہوا جو کراچی میں کباڑیوں کی گرفتاریوں سے ہوا ہے یعنی انہوں نے ہلڑ بازی کے لیے موٹر سائیکل تیار کرنا بند کر دیا۔ لاہور میں سٹریٹ کرائم اور وہیکل چوری کی روک تھام کے لیے سیف سٹی کے کیمروں نے بھی بہت مدد دی ہے۔ ان کیمروں کی مدد سے شاہراہوں پر چوری کی گئی گاڑی ٹریس کرنا آسان ہوگیا ہے۔
سٹریٹ کرائم اور چوری کے بعد کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ بھی گاڑیوں کی چوری ہے۔ کراچی میں ابھی سیف سٹی جیسا پراجیکٹ نہیں ہے کہ ہر شاہراہ پر کیمرے نصب ہوں اس لیے کراچی پولیس کو لاہور کی نسبت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے لیکن آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اپنی مدد آپ کے تحت وزیراعلیٰ سندھ سے فنڈز لے کر کراچی کے ٹول پلازوں میں سیف سٹی طرز پر مانیٹرنگ کا نظام قائم کر دیا ہے۔ کراچی میں 48 ٹول پلازے ہیں۔ کراچی سے باہر جانے والی گاڑی کو لامحالہ طور پر ان میں سے کسی ٹول پلازے سے گزر کر جانا ہے۔
آئی جی سندھ اب تک 40 ٹول پلازوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرا کے ان کی مانیٹرنگ کا نظام شروع کرا چکے ہیں جبکہ باقی 8 ٹول پلازوں پر کیمروں کی تنصیب کا عمل جاری ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ گٹکا، ماوا اور منشیات فروشی بھی ہے جس کے خلاف انہی آئی جی نے آتے ہی ٹاسک فورس کو بحال کر دیا تھا۔ یہاں کرائم آبزرور کے طور پر مجھے جو فیصلہ سب سے اچھا لگا وہ محکمہ کے اندر کرپشن، لاپروائی اور غفلت کو روکنے کے لیے دیے گئے احکامات تھے۔
آئی جی غلام نبی میمن نے ٹاسک فورس بحال کرتے وقت ہی واضح طور پر کہا کہ اسپیشل برانچ کی جانب سے ایسے جرائم کے خلاف دی گئی انٹیلیجنس رپورٹ اگر غلط ثابت ہوئی تو انٹیلیجنس رپورٹس (آئی آرز) دینے والے کو ملازمت سے فوری فارغ کر دیا جائیگا جبکہ جن علاقوں میں گٹکا ماوا، منظم جرائم، منشیات کے اڈے سرگرم ہوئے اور ان کی رپورٹ نہ دی گئی تو متعلقہ ایس ایس پی اور ایس ایچ او کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔
اگر ہم پنجاب میں دیکھیں تو تمام ایس ایچ اوز دوپہر 3 سے شام 6 بجے تک پبلک ڈیلنگ کے لیے تھانوں میں موجود رہنے کے پابند ہیں۔ سندھ میں آئی جی نے تمام ایس ایس پیز کو عوام کے لیے صبح 10 بجے سے دوپہر 2 بجے تک اپنے دفاتر میں موجود رہنے کا پابند کیا ہوا ہے۔ اس فکس ٹائم کا فائدہ یہ ہے کہ عام شہری کو پہلے سے ملاقات کا وقت نہیں لینا پڑتا بلکہ کوئی بھی شہری ان اوقات میں جا کر براہ راست مل کر اپنا مسئلہ بیان کر سکتا ہے۔
کرائم کنٹرول پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ ہر صوبے کی پولیس دوسرے صوبے یا آفیسرز کی اچھی پالیسیز کو اپنا سکتی ہے کیونکہ ہر صوبے کی پولیس کا اصل کام ایک ہی ہے کہ عوام کو پرامن ماحول میسر ہو۔ سندھ پولیس چیف نے ایک کام ایسا کیا ہے جسے پنجاب میں بھی پالیسی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آئی جی سندھ نے بہترین تفتیش کرنے والے تفتیشی افسران و اہلکاروں کو ون سٹیپ پروموشن دینے کا اعلان کیا جس کا سنیارٹی سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ تفتیش کا معیار بہتر ہوگا بلکہ تفتیشی محنت سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کیسز حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور ایسی کارکردگی بیسڈ ترقیوں کا اعلان پنجاب میں بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹریفک سگنلز لائٹس کی خرابی کی شکایات پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے سندھ حکومت کو منظوری کے لیے کچھ سفارشات بھیجی ہیں تاکہ ٹریفک لائٹ سگنلز کی مرمت اور بحالی کے حوالے سے ٹریفک انجینئرنگ بیورو کی ذمہ داریاں محکمہ ٹریفک پولیس کو باقاعدہ تفویض کی جاسکیں۔ وہ ٹریفک لائٹس سگنلز پر کیمروں کی تنصیب اور مسلح پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے سفارش کی ہے کہ ٹریفک ٹکٹس چالان کے جرمانوں کی مد میں حاصل ہونیوالی رقم کا کچھ حصہ ان کیمروں کی بحالی اور مرمت جیسے امور کے لیے بھی رکھا جائے۔ آئی جی پنجاب بھی اسی طرح امن و امان، نگرانی اور دیگر اقدامات کے لیے پولیس کے ذریعے آنے والے فنڈز میں سے کچھ حصہ کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔