اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا بھر میں تحقیق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ٹاپ رینکنگ یونیورسٹیز نہ صرف یہ کہ تعلیمی اسکالر شپ کا دے رہی ہیں بلکہ سٹیفن کے نام پر طلبا کو رہائش اور کھانے کے ساتھ ساتھ ماہانہ رقم بھی ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا لیکن دنیا بھر میں ریسرچ کے لیے ادارے یونیورسٹیز کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں اور حل بتانے کے لیے اس پر ہونے والی ریسرچ کو سپانسر کرتے ہیں۔ اس ریسرچ سے جڑے استاد اور طالب علم کو باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی بذات خود ایک پیڈ ملازمت ہے لیکن پاکستان میں اس ڈگری کے لیے بھی بھاری فیسیں ادا کرنا ہوتی ہیں اور ڈگری کے بعد ملازمت کے لیے دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ ابھی تک وطن عزیز میں یہ رجحان نہیں کہ نجی و سرکاری ادارے اپنے مسائل کے حل کے لیے تحقیق کرائیں اور جامعات کو آن بورڈ لیں۔ یہ تو خیر المیہ ہے ہی لیکن اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ہماری جامعات میں جو تحقیق ہوتی ہے اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا اور تحقیقی مقالے یونیورسٹی ریکارڈ تک رہ جاتے ہیں۔
آپ اندازہ لگائیں کہ ہر سال بڑی تعداد میں ہونے والی ریسرچ کا ملک کو طالب علم کی ڈگری کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ سپیریئر یونیورسٹی کے مالک چودھری عبد الرحمن اور ڈاکٹر سمیرا نے البتہ عالمی سطح کے ایجوکیشنل ایکسپو کا انعقاد کرکے ایک راستہ نکالا اور پھر اس میں دیگر جامعات بھی شامل ہوتی گئیں۔ اس میں طلبہ کے تھیسز اور ایجادات کو براہ راست نیشنل و انٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچایا جاتا ہے۔ این سی اے بھی ایسے ہی اپنے طلبہ کا تھیسز ڈسپلے کرتا ہے لیکن اس کا طلبہ کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں کوئی میکانزم میرے علم میں نہیں ہے۔
بات تحقیقی مقالوں سے شروع ہوئی تھی۔ ایسے مقالے جن کا ملک و قوم کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہو رہا۔ "ایم کیپ" نامی ریسرچ سکالرز کی ایک تنظیم اس حوالے سے متحرک ہے اور پاکستان میں اکیڈمک ریسرچ کو بہتر بنانے کے لیے بہترین کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر زعیم یاسین اور ان کے ساتھی نوجوانوں میں عالمی معیار کی ریسرچ کا رجحان پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت متحرک نظر آتے ہیں یہاں تک کہ سال میں ایک بار ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے تھیسز پر راہنمائی کے لیے بیرون ممالک سے سینئر پروفیسرز کو بھی بلایا جاتا ہے۔
اسی طرح سپیریئر یونیورسٹی ماس کمیونی کیشن کے سابق سربراہ سہیل ریاض راجہ نے بھی سپیریئر میں ایم فل کی سطح پر سیمینارز کی بنیاد رکھی جس سے طلبہ جدید خطوط پر کام کر رہے ہیں۔ سہیل ریاض راجہ کے بعد پروفیسر عاصم منظور اور ان کے بعد آنے والوں نے اس خوبصورت روایت کو آگے بڑھایا اور باقاعدہ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پروفیشنل سٹوڈیو بھی بنا دیا۔ سہیل ریاض راجہ ایک اور نجی یونیورسٹی میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنے تو انہوں نے وہاں بھی پروفیشنل صحافیوں کے گیسٹ لیکچرز اور ورکشاپس شروع کرا دیں تاکہ طلبہ تھیوریز کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی اور تکنیک بھی سیکھ سکیں۔
یہ تو وہ لوگ ہیں جو انتہائی سنجیدگی سے پاکستان میں اکیڈمک ریسرچ کو انٹرنیشنل معیار تک پہنچانا چاہتے ہیں، دوسری جانب ایسا مافیا بھی موجود ہے جو ان اداروں اور پروفیسرز کی محنت پر پانی پھیر رہا ہے اور پاکستان میں ہونے والی ریسرچ کو ہی مشکوک بنا رہا ہے۔ مجھے حیرت آمیز خوشی ہوتی تھی جب پتا لگتا تھا کہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد رینکنگ میں جی سی یونیورسٹی لاہور سے بھی آگے چلی گئی ہے۔
اب دکھ ہو رہا ہے کہ رینکنگ کے لیے بھی فراڈ اور محض گنتی مکمل کی جا رہی ہے۔ اب شاید یہ اہم نہیں رہا کہ کس یونیورسٹی نے کتنی ریسرچ ڈگریاں جاری کیں، کس پروفیسر یا طالب علم کے کتنے ریسرچ پیپر شائع ہوئے یا انہوں نے کسی کانفرنس میں پیش کیے۔ اہم یہ ہے کہ اس تحقیق کا معیار کیا ہے؟ کہاں معیاری کام یو رہا ہے۔ اگلے روز جی سی یو کی جانب سے اردو ادب پر تفویض ہونے والی پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مقالہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا عنوان تھا "فروغ ادب اطفال میں ماہنامہ انوکھی کہانیاں کا کردار" اس کے مقالہ نگار مبشر سعید باجوہ ہیں اور یہ ڈگری 2018 تا 2020 کے عرصہ میں مکمل کی گئی۔
مجھے پہلے حیرت اور پھر دکھ ہوا کہ مقالہ نگار نے روزنامہ نئی بات کے کالم نگار حافظ مظفر محسن کی 30 کے لگ بھگ نظموں کو کسی اور کے نام سے منسوب کر رکھا ہے۔ یعنی پی ایچ ڈی کے تھیسز میں اصل تخلیق کار کے بجائے کسی اور کا نام اور حوالہ دیا ہوا ہے جسے کسی نے بھی کاؤنٹر چیک نہیں کیا اور یونیورسٹی نے اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تک جاری کر دی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری مستند ترین حوالہ ہوتا ہے۔ اب اس مقالہ کا ریفرنس اگلے ریسرچ تھیسز میں شامل ہوگا اور وہ طلبہ بھی حافظ مظفر محسن کی تخلیق کو کسی اور کے نام سے لکھتے رہیں گے۔ اسے انتہائی درجہ کی ادبی و انٹلیکچوئل بددیانتی کہا جاتا ہے جو ناقابل معافی ہوتی ہے۔
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد اگر رینکنگ میں اوپر آنے کے لیے بنا دیکھے غیر معیاری کام پر ڈگریاں بانٹ کر خود کو دوسروں سے ممتاز قرار دلوانے کی کوشش کرے گی تو یہ کہانی زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ بطور ریسرچ اسکالر اور تخلیق کار میں سمجھتا ہوں کہ جی سی یو فیصل آباد اور ہائر ایجوکیشن کو اس پر ایکشن لینا چاہیے۔ یہ ڈگری فریز کرکے سب سے پہلے تو تھیسز کی کاپیاں ضائع کرائی جائیں تاکہ یہ کسی اور جگہ اسی طرح غلط حوالوں کے ساتھ بطور ریفرنس شامل نہ ہو اس کے بعد اس کے حوالے چیک کرا کے درست کرائے جائیں اور ریکارڈ میں نیا تصیح شدہ تھیسز رکھا جائے۔ اس تھیسز کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے لہٰذا اس ایڈیشن کی تمام کاپیاں بھی ضبط کی جائیں اور تصیح شدہ ایڈیشن ہی مارکیٹ میں لایا جائے۔
اس کے علاوہ ایسی سنگین غلطی پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد اور ہائر ایجوکیشن کی جانب سے اول تخلیق کار حافظ مظفر محسن کو معذرت کا لیٹر بھی جاری کیا جائے۔ حافظ مظفر محسن عرصہ چالیس سال سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور یہ نظمیں بھی نوے کی دہائی میں شائع ہوئی تھیں۔