ڈیجیٹل فراڈ یعنی سائبر کرائم اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک بڑے تاجر کو 7 کروڑ کا چونا لگ گیا۔ یہ کہانی جاننے سے پہلے سائبر کرائم پر بات ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں سائبر کرائم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ کبھی ایزی پیسہ یا جاز کیش ڈسکاؤنٹ میں پیسے بھیج کر واپس مانگنے کے بہانے مخصوص کوڈ لینے سے لے کر بنک ملازم بن کر پاسورڈ حاصل کرنے تک فراڈ کی طویل داستان ہے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس فراڈ کی وجہ سے لاکھوں روپے سے محروم ہو چکی ہے۔ اسی طرح ایسا گروہ بھی ہے جو بیٹے یا بھتیجے کی آواز میں روتے ہوئے کال کرتا ہے کہ پولیس نے گرفتار کر لیا ہے پھر پولیس ملازم بات کرتا ہے کہ اصل ملزم اس کا دوست ہے لیکن یہ بچہ بھی رگڑا جائے گا، اگر فوراً اتنے پیسے بھیج دو تو اسے گاڑی سے اتار دوں گا ورنہ تھانے پہنچ گئے تو کیس درج ہو جائے گا۔ یہ سب اس طرح پلان ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص گھبراہٹ میں فوراً پیسے بھیج دیتا ہے۔ اسے لٹنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے اور پولیس اہلکار سمیت سبھی فراڈ تھے، بیٹا تو کسی دوست کے ساتھ تھا۔
اب ڈیجیٹل بھکاریوں کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ یہ لوگ مظلوم بن کر سوشل میڈیا پر لوگوں کی ہمدردیاں بٹورتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ کینسر کے مریض بنتے ہیں تو خواتین کی اکثریت دو وقت کی روٹی تک نہ ہونے کا بتاتی ہیں۔ تھوڑی سی تحقیق کی تو معلوم ہوا کینسر کا مریض بالکل ٹھیک تھا جبکہ اس کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے والا بھی کمیشن ایجنٹ تھا۔ لاہور شام نگر کی ایک خاتون نے اپنی بچیوں کی فیس کے لیے چار لاکھ کا مطالبہ کیا۔
تحقیق پر معلوم ہوا وہ اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ ہے۔ شوہر کا کاروبار بھی ہے اور زمین جائیداد بھی ہیں۔ ہوا یہ کہ شوہر بیٹیوں کو آئی فون لے کر دینے کے حق میں نہیں تھا۔ خاتون نے ایک اور دوست خاتون کے ساتھ مل کر خود کو غریب ظاہر کیا اور بچیوں کی فیس ادائیگی کے نام پر چار لاکھ مانگ لیے۔ اس میں سے ایک لاکھ اس خاتون کا کمیشن تھا جس نے سوشل میڈیا پر رقم اکٹھی کرنا تھی۔
ڈونیشن دینے والوں نے تحقیق کی تو خاتون کے شوہر تک پہنچ گئے۔ بات کھل گئی۔ شوہر کو معلوم ہوا تو اس نے ایک ماہ میں بیٹیوں کا رشتہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ کر دیا اور رخصتی کے وقت آئی فون بھی لے دیا۔ اب خاتون خانہ اس عمر میں اپنے میکے بیٹھی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر امداد مانگنے والوں کی اکثریت کے گھر ایئرکنڈیشن چل رہے ہوتے ہیں لیکن کھانے کے لیے روٹی تک نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اصل حقداروں کا بھی حق مارتے ہیں۔
میں کہا کرتا ہوں کہ اگر آپ اتنے بُرے حالات کا شکار ہیں تو پہلا قدم آپ کی فیملی، عزیز و اقارب اور اہل محلہ کو اٹھانا چاہیے۔ اگر یہ سب مشکل وقت میں آپ کے ساتھ نہیں اور آپ کی مدد نہیں کر رہے تو اس کا مطلب ہے آپ یا تو اچھے انسان نہیں رہے یا پھر انہیں اندازہ ہے کہ آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ سائبر کرائم میں کئی اور وارداتیں بھی شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ لوگ فراڈ اور حرام سے بچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو جائے تو یہی سب ہونے لگتا ہے۔ پاکستان میں تو جعلی سم کارڈ نکلوا کر کسی سے بھی فراڈ کرنا بہت آسان ہے جبکہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ بھی اصل ملزمان کو گرفتار کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس ایزی پیسہ دکانداروں اور دیگر بے گناہوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے ریکوری لے لی جاتی ہے جو کہ بذات خود ایک جرم اور گناہ ہے سائبر کرائم کا حیرت انگیز فراڈ گزشتہ دنوں بھارت میں ہوا ہے جو یہاں کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ ممکن ہے اس پر بھارت میں فلم بھی بن جائے۔
گزشتہ دنوں انڈیا کی معروف کاروباری شخصیت ایس پی اوسوال کے ساتھ 7 کروڑ کا فراڈ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ 82 برس کے ایس پی اوسوال ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہے۔ وہ وردھمان گروپ کے سربراہ ہیں۔ ملزمان نے سی بی آئی افسران کا روپ دھار کر ان سے رابطہ کیا اور منی لانڈرنگ کیس میں جعلی گرفتاری کا وارنٹ دکھا کر دعویٰ کیا کہ اس وارنٹ کو ممبئی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جاری کیا ہے۔
اسی طرح سپریم کورٹ کا جعلی حکمنامہ بھی دکھایا گیا جس کے تحت حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک سیکرٹ سپرویژن اکاؤنٹ میں سات کروڑ روپے جمع کرائیں۔ ان ملزمان نے دو روز تک تاجر کی سکائپ کے ذریعے ڈیجیٹل نگرانی کی اور سکائپ پر ہی جعلی عدالت دکھا کر کیس کی آن لائن سماعت بھی کر لی۔ ملزمان نے اوسوال کے سامنے یہ ڈھونگ رچایا کہ ان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے جس میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے گذشتہ سال ستمبر کے دوران ایک کاروباری شخصیت کو گرفتار کیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ ممبئی میں ان کے نام پر ایک اکاؤنٹ ہے جس میں بے ضابطگیاں ہیں۔
یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اوسوال نے ایک غیر قانونی پارسل بھیجا تھا جو پکڑا گیا ہے۔ ان ملزمان نے اس حد تک دباؤ ڈالا کہ اوسوال نے کسی سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ اس بارے میں کسی کو بتانا غیر قانونی ہوگا۔ یہ کہانی دو دن تک چلتی رہی اور ملزمان 82 سال کے اس تاجر کی دو دن مسلسل آن لائن نگرانی کرتے رہے، انہیں کیمرے کے سامنے سے ہٹنے کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ وہ سوئے بھی تو کیمرے کے سامنے ہی سوئے۔
دو روز تک سکائپ مسلسل آن رہا جہاں مختلف لوگ ڈیوٹی بدل کر ان کی نگرانی کرتے رہے۔ انہیں کوئی ٹیکسٹ میسج یا کال کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اوسوال کے مطابق انہیں آن لائن حراست میں رکھا گیا تھا اور 24 گھنٹے نگرانی کے قوائد و ضوابط پر مبنی 70 نکات کی دستاویز دی گئی جس کی انہوں نے من و عن پیروی کی۔ اس دوران ملزمان نے جعلی سپریم کورٹ بنا کر اس کیس کی آن لائن سماعت کی جس دوران ایک شخص نے اپنا تعارف چیف جسٹس دھنجے یشونت چندرچوڑ کے طور پر کرایا لیکن اس کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔ اس آن لائن سماعت میں اوسوال کے ساتھ عدالت کا ایک جعلی حکمنامہ شیئر کیا گیا جو بالکل اصلی لگتا تھا۔ اس کے بعد اوسوال نے سات کروڑ روپے ملزمان کے بتائے گئے اکاؤنٹ میں منتقل کر دئیے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ عام نمبر سے واٹس ایپ پر نوٹس بھیجتا ہے لہٰذا اصل اور فراڈ نوٹس میں فرق نہیں رہتا اس کا فائدہ نو سر بازوں کو ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا طریقہ کار تبدیل کرے۔ لوگوں کو دوسرے شہر بلانے کے بجائے ان کے اپنے شہر بلایا جائے اور نوٹسز کو باقاعدہ طریقہ کار کے تحت بھیجا جائے تا کہ نوسرباز اس طریقہ کار کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔