کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لیے کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کے بعد ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے لیے پہلے پاکستان ہے اس کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت سے نظریاتی یا عملی وابستگی ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس میں سیاسی جماعت یا شخصیت کو وطن کی محبت سے افضل بنایا جا رہا ہے۔ قیادت، قائد اور سیاسی جماعتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اگر آزادی ہی چھن جائے تو قوموں کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فلسطین سے کشمیر تک کے عوام اس کی عملی مثال ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ دنوں سے جاری احتجاجی مظاہروں نے جہاں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے وہیں متعدد سوالات کے جوابات بھی مل رہے ہیں۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ احتجاج سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ عام شہری کا بھی جمہوری حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قومی سطح کی کوئی جماعت ملکی مفادات کے خلاف جا سکتی ہے؟ ماضی میں کس طرح چینی صدر کے دورے، سی پیک منصوبے اور پھر طیب اردوان کے دورے کے موقع پر پاکستان کا منفی امیج بنایا اور قائم کیا گیا اس کا تو سب کو علم ہے ہی لیکن جب ملک دیوالیہ ہونے کو تھا تب آئی ایم ایف سے براہ راست کہنا کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے بذات خود بہت بڑا سوال ہے۔
اس بار پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ جن دنوں دیگر ممالک کی جانب سے ان کے سربراہان مملکت کی سکیورٹی کلیئرنس لی جا رہی تھی انہی دنوں اسلام آباد میں احتجاج اور پھر دھرنے کی کوشش نے کئی سوال اٹھا دئیے کیونکہ اس کا مقصد واضح نہیں ہو سکا لیکن دیگر ممالک کو یہ پیغام البتہ پہنچایا گیا کہ پاکستان سرمایہ کاری یا ڈویلپمنٹ کے منصوبوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔ یہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں اور شہر اقتدار تک میں ہنگامہ آرائی کی صورت حال ہے۔ بدقسمتی سے یہ پیغام ایک ایسی جماعت کی پالیسی کے ذریعے گیا جو خود کو ملک کی نمبر ون جماعت کا ٹائٹل دیتی ہے۔ اب تو کئی اور راز کھل رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا سے سرکاری ملازمین کو لا کر پولیس سے لڑایا گیا، شرپسندی اور لاشیں گرانے کی کوشش کی گئی۔ لوگوں کو اسلام آباد لا کر انہیں لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے خود منظر نامہ سے غائب ہو گئے، کئی اور لیڈر میدان میں موجود نہیں تھا۔ لیڈر شپ ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ایک اور نو مئی کا منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے جس میں پچھلی غلطی نہیں کی جائے گی۔
اس بار لیڈر شپ غائب ہو جائے گی اور عام کارکن مشتعل ہو کر جلاؤ گھیراؤ کریں گے۔۔ اس طرح الزام بھی لیڈر شپ ہر نہیں آئے گا اور مقاصد بھی پورے ہو جائیں گے۔ شاید چیئرمین کا خیال تھا کہ اس طرح ریاست گھٹنے ٹیک کر ان سے مذاکرات پر آمادہ ہو جائے گی اور ان کے کیسز ختم ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ لاوارث چھوڑے گئے کارکنان خود گھبرا گئے اور وہ نتائج نہیں مل سکے جن کا سوچا گیا تھا۔ البتہ اس احتجاج نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے۔
سوشل میڈیائی نعروں کے شور میں سائنٹیفک تجزیہ کریں تو ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو جیسے لایا گیا تھا ویسے ہی سمیٹا جا رہا ہے۔ عملی طور پر بلوچستان میں اس پارٹی کی ایکٹیویٹی نظر نہیں آ رہی۔ اسی طرح سندھ میں بھی پارٹی کارنر ہوگئی ہے اور کوئی بڑی موومنٹ نہیں رہی۔ پنجاب میں لاہور والا احتجاج ہمارے سامنے ہے، ایوان عدل میں حامدخان گروپ وغیرہ کے علاوہ کوئی خاص ایکٹیویٹی نہیں دکھائی جا سکی۔
لاہور احتجاج ایسا پاور فل نہیں تھا کہ اثر انداز ہو۔ باقی پنجاب سے بھی قافلے جوق در جوق آتے نظر نہیں آئے یعنی پنجاب میں بھی ہینڈلرز نے معاملہ ہینڈل کر لیا ہے۔ اس سے پہلے والے جلسہ میں بھی باقی لاہور پُرسکون رہا تھا۔ سڑکیں نارمل تھیں۔ وفاق میں بھی چیئرمین کو چھڑانے کے نعرے لگانے والے کس طرح واپس لیجائے گئے یہ گیم انہیں خود بھی سمجھ نہیں آئی۔ اب صرف کے پی کے باقی ہے اور وزیراعلیٰ کے پی کے کی "سنجیدگی" کو دیکھیں تو لگتا ہے جلد وہاں بھی صورت حال بدل سکتی ہے۔
تحریک انصاف نے جلسوں کا ایک نیا شیڈول بھی دیا ہے لیکن سائنٹفک بنیادوں پر مکمل صورت حال کو دیکھیں تو واضح ہے کہ 2018 میں جو سیاسی بساط بچھائی گئی تھی وہ بہت پُرسکون انداز میں لپیٹی جا رہی ہے۔