گرمیوں کا آغاز ہو چکا اب آہستہ آہستہ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس سال کا علم نہیں لیکن ماضی میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بجلی سپلائی کمپنی کے ایک اہم عہدے دار سے بات ہوئی۔ ان کا نام عبد القدیر ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ کیا ہے اور اس کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مجھے بجلی سپلائی اور لوڈ شیڈنگ کا پورا سسٹم دکھایا اور اس پر بریفنگ دی۔
ایک نوجوان کا تعارف کرایا جس کا کام ہی لوڈ شیڈنگ کرنا تھا۔ وہ ایک ہال میں کرسی رکھے بیٹھا تھا اور جس علاقہ میں لوڈ شیڈنگ کا شیڈول ہوتا وہاں کی بجلی منقطع کر دیتا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اچھا یہ ہے وہ نوجوان جسے آدھے سے زیادہ پنجاب تلاش کر رہا ہے۔ عبد القدیر صاحب کہنے لگے کہ یہ تو بس شیڈول کے مطابق کام کرتا ہے۔ وہاں ہر علاقے کی بجلی سپلائی کا میٹر لگا ہوا تھا جو بھیجی گئی بجلی کو مانیٹر کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منگلا سے آنے والے بجلی آگے مرحلہ وار تقسیم ہوتی ہے۔
اب جس علاقے کی بجلی کا استعمال اس علاقے میں سپلائی ہونے والی بجلی سے بڑھ جائے وہاں لوڈ شیڈنگ کے ذریعے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو مینج کرنا پڑتا ہے۔ گرمیوں میں چونکہ پنکھے، ایئر کولر اور اے سی کا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے اس لیے لوڈ شیڈنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر اسے گھنٹوں کے شیڈول پر مینج نہ کیا جائے تو پھر بعد میں کئی کئی دن کے ڈاؤن فال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے علاقے میں کسی حد تک لوڈ شیڈنگ کنٹرول کر سکتے ہیں۔
اگر محلہ کمیٹیاں، مساجد اور دیگر شرفا مل کر یہ طے کر لیں کہ اپنے علاقے میں خاص طور پر گرمیوں میں بجلی کے استعمال کو کنٹرول کر لیں گے تو اس علاقے میں لوڈ شیڈنگ کا شیڈول بہتر ہو سکتا ہے۔ پنکھے، ایئر کولر اور اے سی کا استعمال تو ضرورت ہے لیکن دیگر الیکٹرک اشیا خصوصاً اوون وغیرہ سے چند ماہ جان چھڑا لیں تو علاقے میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا شیڈول بہتر ہو سکتا ہے۔
اس سے بھی اہم یہ ہے کہ بجلی چوری پر قابو پایا جائے۔ گرڈ سٹیشن سے کسی علاقے کو جتنی بجلی دی جاتی ہے اس کا مکمل بل یا پیمنٹ بھی لی جاتی ہے لہٰذا اگر آپ کے علاقے میں بجلی چوری ہو رہی ہے تو اس کا بل آپ کو ادا کرنا پڑتا ہے، یہ چوری ہونے والی بجلی کو لائن لاسز کے نام پر علاقے کے بلوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک مڈل کلاس بندہ بجلی کے کم یونٹ استعمال کرنے کے لیے ایئر کولر یا اے سی کے بجائے پنکھے پر گزارہ کرتا ہے لیکن اسے پھر بھی اس اے سی کا بل دینا پڑتا ہے جو اس کا ہی کوئی ہمسایہ بجلی چوری کرکے مسلسل چلاتا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بجلی چوری لائن مین اور ایس ڈی او کی مرضی کے بنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں جہاں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں وہاں ایس ڈی او کو اس کا علم ہوتا ہے اور رشوت میں حصہ داری ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی علاقے میں بجلی چوری ہو رہی ہو اور وہاں کے آپریشنل سٹاف کو اس کا علم نہ ہو۔ حکومت کو اس حوالے سے بھی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز انتہائی متحرک ہیں۔ وہ اس پر ایک شکایت سیل بنا سکتی ہیں۔ اس سیل کا کمپلینٹ نمبر جاری کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ براہ راست اس نمبر پر بجلی چور کی نشاندہی کریں اور وزیراعلیٰ شکایت سیل کی ٹیم خود جا کر اس کی کنفرمیشن کرے۔ اگر واقعی بجلی چوری ہو رہی ہو تو سب سے پہلی کارروائی علاقہ کے ایس ڈی او اور لائن مین کے خلاف کی جائے۔ ایسی چند کارروائیوں کے بعد ہی نتائج سامنے آ جائیں گے۔
عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ بجلی چور علاقے کے بااثر افراد ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی شریف بندہ جھگڑا مول نہیں لینا چاہتا۔ علاقہ کے ایس ڈی او یا لائن مین کو شکایت کا فائدہ نہیں کہ وہ تو خود ساتھ ملے ہوتے ہیں اور بجلی چور کو ہی اطلاع دے سکتے ہیں کہ شکایت کس نے کی ہے۔ یہاں تک کہ عوام کو محکمہ پر بھی اعتماد نہیں رہا۔ اگر شہریوں کو یہ علم ہو کہ ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اور کمپلینٹ بھی وہ محکمہ کے بجائے وزیر اعلیٰ شکایت سیل میں کر رہے ہیں جو خود چوری پکڑ کے ایکشن لے گا تو یقینا بجلی چوروں کے خلاف بڑی کارروائیاں شروع ہو سکتی ہیں۔
اسی طرح یہ بھی زیادتی ہے کہ بجلی چوروں کو سہولت دیتے ہوئے لائن لاسز کے نام پر ان کا بل قانون پسند شہریوں پر ڈالا جائے۔ اگر حکومت ایسا قانون بنا دے کہ جس علاقہ میں جتنی بجلی چوری ہو رہی ہے وہ ایس ڈی او اور لائن مین یا اس علاقہ کے آپریشنل سٹاف پر ڈالی جائے گی تو بھی ایک ہفتے میں تمام کنڈے اتر جائیں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ شدید گرمی میں بچوں، بزرگوں اور مریضوں کا صرف ایک پنکھے میں گزارہ کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور عوام مل کر ان مسائل سے جان چھڑا سکتے ہیں لیکن پہلا قدم حکومت کو اٹھانا ہوگا۔ جب شہریوں کو علم ہوگا کہ حکومت اور محکمہ بجلی چوروں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کر رہی تو عوام بھی بجلی کا کنٹرولڈ استعمال کرنے لگیں گے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل کر چکے ہیں لیکن ہم بجلی چوری سمیت دیگر اندرونی کرپشن کی وجہ سے اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔