موسم ان کے لیے ٹھیک ہے جن کے گھر چوبیس گھنٹے اے سی چلتا ہے، گاڑی میں ٹھنڈک رہتی ہے اور دفتر میں سنٹرل ایئر کولنگ کا نظام ہے۔ یہ موسم اس محنت کش کی جان لے رہا ہے جسے سڑک پر روزگار کمانا ہے۔ تربوز بیچنے والے سے لے کر شربت فروش تک کہ اپنی حالت بہت بری ہے، مزدور پریشان ہے، دیہاڑی لگاتا ہے تو گرمی کی شدت مار دیتی ہے، کام نہیں کرتا تو بھوک جان لے لیتی ہے۔ موٹر سائیکل پر دفتر جانے والا جس حالت میں گھر پہنچتا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ چند سال قبل تک ہمارا موسم ایسا نہیں تھا، گرمیاں غریب کے لیے بھی قابل برداشت تھیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ زرعی ملک کا موسم صحرائی ملک جیسا ہوا جاتا ہے۔
سچ کہیں تو موسمیاتی تبدیلیاں ہمارا سب کچھ کھا گئی ہے۔ ہماری سردیاں وباؤں اور فضائی آلودگی میں گزرتی ہیں، سموگ اپنے ساتھ کئی بیماریاں بھی لاتی ہے جبکہ گرمی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ درجہ حرارت کی شدت ہر سال تاریخ کا ریکارڈ توڑتی ہے۔ محکمہ موسمیات اپنی رپورٹ جاری کرتا ہے لیکن پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دو نام سامنے آئے ہیں جن کو سپورٹ کیا جائے تو ہم اپنے موسمیاتی مسائل حل کر سکتے ہیں یا کم از کم ان تبدیلیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انجینئر ظفر اقبال وٹو پانی کی اہمیت اور اس کی بتدریج ہوتی کمی کے حوالے سے لوگوں کو سوشل میڈیا پر آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہر سال بارشوں خصوصا مون سون کے موسم میں صاف پانی کے ضائع ہونے کا رونا روتے ہیں لیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے بارشوں کا صاف پانی محفوظ کرکے صاف پانی کی قلت کو ختم کرنے اور زیر زمین پانی کے لیول کو اوپر لانے کے لیے کئی عملی منصوبے بتائے لیکن حکومتی سرپرستی اور عوامی دلچسپی میں کمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ان منصوبوں پر عمل نہیں ہو پایا جس کی وجہ سے لاہور جیسے شہر میں زیر زمین صاف پانی کا لیول تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔
اسی طرح دوسری شخصیت منور سلیم کھوکھر ہیں۔ موسم کے حوالے سے اپنے کام کو جنون میں تبدیل کرنے والے اس شخص نے اپنا ذاتی موسمیاتی اسٹیشن لگایا ہوا ہے جہاں سے وہ موسم پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا یہ موسمیاتی سٹیشن دن رات کام کرتا ہے اور ہر 16 سے 20 سیکنڈ بعد ہر قسم کی موسمی اپڈیٹ دیتا ہے اور یہ معلومات آٹو میٹک انداز میں ڈیٹا سسٹم میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ منور سلیم کھوکھر خود بھی مختلف جگہوں پر جا کر موسمیاتی معلومات اکٹھا کرتے ہیں اور بروقت موسمی پیش گوئی جاری کرتے ہیں۔ ان کی بروقت پیش گوئیاں کسانوں کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں کہ ان کی روشنی میں کسانوں نے بروقت اقدامات کیے اور معاشی اور زرعی فوائد حاصل کیے۔ اسی طرح ان کی برف باری، لینڈ سلائیڈنگ، آندھی اور موجودہ ہیٹ ویو کی پیش گوئیوں نے ہزاروں مسافروں کی زندگیاں بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مختلف واٹس ایپ گروپس بنائے ہوئے ہیں جہاں لوگوں کو آپ ڈیٹ دیتے ہیں۔
منور سلیم کھوکھر کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے 2022 کی تباہ کن بارشوں کی پندرہ دن قبل ہی ٹھیک پیش گوئی کر دی تھی۔ موجودہ ہیٹ ویو یا گرمی کی لہر کی پیش گوئی بھی انہوں نے 23 اپریل کو ہی کردی تھی حالانکہ اس وقت پنجاب میں لوگ کمبل اور کھیس استعمال کر رہے تھے۔ موجودہ ہیٹ ویو اور گرمی کی شدت کے حوالے سے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موسم کی شدت بعض علاقوں میں 52 ڈگری تک پہنچ جائے گی اور دو جون تک یہ کیفیت برقرار رہے گی جبکہ اس سال خوفناک مون سون کی پیشنگوئی بھی پہلے سے کر چکے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ ان کی معلومات کو بنیاد بنا کر کوئی خاص حفاظتی اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے قابل افراد کی خدمات سے بھرپور استفادہ نہیں کر پاتے۔ ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر بنائی جانے والی مزاحیہ ویڈیوز بھی ضروری ہیں کہ ذہنی دباؤ کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں لیکن اس کی آڑ میں قابل اور محنتی افراد کو یکسر نظر انداز کر دینا بھی اچھی روایت نہیں ہے۔ ہم ہر سال سرکاری سطح پر شجر کاری مہم شروع کرتے ہیں لیکن فوٹو سیشن کی حد تک لگائے گئے پودوں میں سے کتنے پودے باقی رہ پاتے ہیں اس کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس خطے کے اپنے درختوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور آرٹیفیشل درخت لگائے جانے لگے۔ یہاں تک کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے بھی سایہ دار آم، نیم، پیپل، جامن، شیشم اور دیگر علاقائی درختوں کی بجائے خوبصورتی کے نام پر کھجور اور اسی نوعیت کے درخت لگانے شروع کر دیئے۔
اس سال موسم ناقابل برداشت ہوا جاتا ہے۔ بجلی کے بل اور ان بلوں میں شامل ٹیکس ویسے ہی ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ اگلے سال صورت حال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم طے کر چکے ہیں کہ جس طرح برف پوش پہاڑوں پر رہنے والے سردیوں میں میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اسی طرح چند سال بعد میدانی علاقوں سے بھی لوگ ہجرت کیا کریں گے؟ یہ ملک ہمارا ہے، یہاں ہم نے ہی رہنا ہے تو پھر ہم اس ملک کو بہتر کیوں نہیں بنا سکتے؟ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ظفر اقبال وٹو اور منور سلیم کھوکھر کی طرح متحرک کیوں نہیں ہو سکتے۔
ہم شجرکاری کے نام پر فوٹو سیشن سے باہر نکل کر درختوں اور پودوں کی حفاظت کی ذمہ داری کیوں نہیں اٹھا سکتے۔ ہم اپنے گھروں اور گھروں کی چھتوں کو سبزے میں تبدیل کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں یہ سب خود کرنا ہے، حکومت سپورٹ تو دے سکتی ہے لیکن اگر سرکار پر تکیہ کرتے رہے تو بہت جلد نہ صرف یہ کہ آلودگی، وباؤں اور بیماریوں میں نمبر ون ہوں گے بلکہ گرمی کی شدت اور ہیٹ ویو بھی ان ہنستے بستے شہروں کو صحرا میں تبدیل کر دے گی۔ اگلے برسوں میں ایسے تباہ کن موسم سے بچنا ہے تو ابھی سے اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ میدانی علاقے مستقل مہاجروں کو جنم دینے لگے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب گرمیوں میں پورا پنجاب اور سندھ ہجرت کرنے لگے گا۔