میڈیا مینجمنٹ اور امیج بلڈنگ پروفیشنلز کا کام ہے۔ سوشل میڈیا بظاہر بہت آسان لگتا ہے لیکن ادارہ جاتی سطح پر سٹریٹیجی بنانے والے ماہرین کے بغیر اس کا استعمال بری طرح بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی پنجاب پولیس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آئی جی پنجاب نے اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد سوشل میڈیا کو جس طرح اہمیت دی وہ قابل تعریف ہے۔ موجودہ دور میں اداروں کو امیج بلڈنگ کے لیے سوشل میڈیا پر آنا ہی ہے۔
ہمارے ادارے عوام سے جتنا قریب ہوں گے اتنے ہی فاصلے کم ہوں گے۔ پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلے آئی جی انعام غنی تھے جنہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ وہ تاریخ کے پہلے آئی جی تھے جو فیس بک پر لائیو آ کر عوام کے مسائل سنتے تھے۔ یہ انتہائی جرات مندانہ کام تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں پولیس چیف براہ راست عام شہری کے سامنے آ کر بیٹھ جائے اور لائیو مسائل سن کر حل کرے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ لوگوں نے بھی پولیس کے خدشات دور کر دیے اور ہر شخص نے انتہائی مہذب انداز میں بات کرتے ہوئے مسائل سے آگاہ کیا۔ انعام غنی فیلڈ آفیسر بھی تھے، انہوں نے سوشل میڈیا اور فیلڈ دونوں کو انتہائی کامیابی سے بیلنس کیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر عثمان انور نے سوشل میڈیا کو اتنی اہمیت دی کہ انہیں سوشل میڈیا پر "ٹک ٹاکر آئی جی" کہا جانے لگا ہے۔ بدقسمتی سے وہ سوشل میڈیا اور فیلڈ کو بیلنس نہیں رکھ پائے، ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ کرائم کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
لاہور جیسے شہر میں بھی روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں وارداتوں کا سلسلہ نہیں رک سکا۔ انہوں نے محکمہ کے سربراہ کے طور پر فورس کو جس طرح ترقیاں اور میڈلز دیے وہ ان کا کریڈٹ ہے لیکن جس طرح لوگ "پب جی" کا شکار ہوئے ایسے ہی ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا کا شکار ہو گئے۔ ترقیوں کے عمل نے پولیس فورس کا مورال بلند کر دیا تھا جو ڈاکٹر عثمان انور کی کمانڈ میں ہی عرش سے فرش پر آ گیا۔
سوشل میڈیا فوبیا اور درست سٹرٹیجی نہ ہونے کی وجہ سے ان سے بہت سے غلطیاں ہوئیں۔ پہلے انہوں نے کچھ پولیس آفیسرز کو بہترین کارکردگی پر انعامات دیئے، تصاویر بنوائیں، سوشل میڈیا پوسٹیں بنوا کر لگائیں اور پھر اسی ہفتے پتا لگا وہ آفیسر تو منشیات فروشوں کے سرپرست تھے اور نہ صرف سرپرست بلکہ اس دھندے میں باقاعدہ شامل تھے۔
یہ ایک بڑا سکینڈل بن گیا جس کی ملکی ہی نہیں عالمی میڈیا نے بھی کوریج کی۔ اب ایک اور ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں آئی جی پنجاب بہاولنگر تھانے کے اسی انسپکٹر اور کانسٹیبلز کو بلا کر ان کی تعریف کر رہے ہیں جن کا معاملہ ملکی و عالمی میڈیا پر چلتا رہا اور وہ غیر قانونی اقدامات میں ملوث پائے گئے۔ اس سے تاثر یہ ملتا ہے کہ پولیس چیف گدھے گھوڑے ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہے اور انہوں نے پبلسٹی سٹنٹ کے طور پر کرپٹ لوگوں کے لیے بھی سزا کے بجائے جزا کا فارمولا بنا لیا تھا۔ ان کا ٹارگٹ شاید یہ تھا کہ جتنے لوگوں کو بلا کر تعریفی سرٹیفکیٹ دیں گے اتنی ہی ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر آپ لوڈ ہوں گی۔
المیہ یہ ہوا کہ جو لوگ منشیات فروشوں کے سرپرست تھے، جو رشوت خوری، عوام پر تشدد اور غیر قانونی حراست کے حوالے سے جانے جاتے تھے وہ تعریفی سرٹیفکیٹ اور انعامات لے کر علاقائی سطح پر مزید مضبوط ہوتے گئے۔ ان کی آئی جی کے سامنے سر جھکانے کے بجائے چھاتی پھلا کر کھڑے ہونے کی تصاویر آنے لگیں جو کہ ایماندار افسران و اہلکاروں کے ساتھ زیادتی ہے اور عوام سوچنے لگے کہ جن کی آئی جی تعریف کر رہے ہیں ان کے خلاف ہماری فریاد کہاں سنیں گے۔
پنجاب پولیس نے اس دور میں ٹک ٹاکرز کو بھی خاص اہمیت دی۔ جن ٹک ٹاکرز کی اخلاق باختہ ویڈیوز لیکس ہوتی تھیں وہ پولیس چیف کے ساتھ کھڑی نظر آنے لگیں اور انہیں پولیس تقریبات میں مدعو کیا جانے لگا۔ ایک ڈی پی او دو ٹک ٹاکرز کے درمیان لین دین کا مسئلہ حل کرتے ہیں تو باقاعدہ مائیک لگا کر ویڈیو بنائی گئی جس سے یہ بھی پلانٹڈ لگنے لگا۔
معاشرے کا سنجیدہ طبقہ اس غیر سنجیدگی پر حیران تھا۔ اس سے اگلے مرحلے میں پولیس ٹریننگ سنٹر میں ایسے ٹک ٹاکر کو بلا کر پروٹوکول دیا گیا جس پر فراڈ کے مقدمات درج تھے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج ہوا اور پولیس کا مذاق بنا تو کہا گیا کہ اس ٹک ٹاکر کو بلانے والے کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ یہ کارروائیاں بھی ماتحت عملہ کے خلاف ہی ہوتی ہیں۔
پنجاب پولیس کے بعد جیل پولیس بھی پیچھے نہ رہی اور انہوں نے کیمپ جیل میں ایک ایسے "چودھری یوٹیوبر" کو بلا کر پروگرام کرا لیا جو لاہور کا نامی گرامی بدمعاش اور جواریا ہے۔ جس کا بھائی بھی بدمعاش تھا، جس کے سارے پروگرام ٹاپ ٹین کے ساتھ اپنے تعلقات اور ان کی لڑائیوں پر ہوتے ہیں۔ اس ریاست میں عام آدمی کس سے انصاف کی امید رکھے گا جہاں ایسے افراد جن پر کئی مقدمات درج ہوں انہیں کبھی پولیس ٹریننگ سنٹر بلا کر پروٹوکول دیا جاتا ہے تو کبھی جیل بلا کر عزت دی جاتی ہے۔ جہاں پولیس چیف جن افسران و اہلکاروں کو پنے دفتر بلا کر انعامات دے اور ان کی تعریف میں ویڈیوز ریکارڈ کرائے وہی افسران و اہلکار مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نکلیں تو انٹرنل اکاؤنٹبیلٹی جیسی باتیں مذاق لگنے لگتی ہیں۔
یہ سب اسی لیے ہوا کہ آئی جی پنجاب سوشل میڈیا فوبیا کے شکار ہو گئے۔ ان کی میڈیا و سوشل میڈیا امیج بلڈنگ کے لیے سٹرٹیجی نہ بن سکی یا پھر ان کا ایک مخصوص ہومیوپیتھک تاثر ہی قائم کیا گیا جو اب مذاق بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا ہینڈلنگ صرف ویڈیو بنانے اور آپ لوڈ کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک باقاعدہ شعبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیز میں بھی سوشل میڈیا سٹرٹیجی بنانے والوں لاکھوں روپے معاوضہ پر رکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں عام خیال یہی ہے کہ سٹرٹیجی بنانا کونسا مشکل کام ہے۔ ویڈیو بنا لیں، کسی ٹرینڈ کو فالو کر لیں، آپ لوڈ کر دیں تو کام چل جائے گا۔ اگر یہ سب اتنا ہی آسان اور سادہ ہوتا تو پنجاب پولیس سوشل میڈیا پر اتنی متحرک ہونے کے باوجود ناکام نظر نہ آ رہی ہوتی۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اکثر اداروں میں پی آر کمپین تاحال پچھلی صدی کے طریقہ کار کے مطابق ہی چل رہی ہے جو کہ اب جدید ڈیجیٹل دور میں متروک ہو چکی ہے۔ کانٹینٹ، ایس ای او، کمپین، آپ لوڈنگ سٹرٹیجی سمیت دیگر کئی کام ایسے ہیں جن کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ادارے اچھے کاموں کے باوجود اپنی امیج بلڈنگ میں ناکام نظر آتے ہیں جس کا ملبہ بہرحال کمانڈ پر ہی گرتا ہے۔
آئی جی پنجاب کو اسی ناکامی کی وجہ سے ایک سیاسی جماعت کے ایکسپرٹس نے جتنا ٹف ٹائم دیا وہ شاید ہی اسے بھول سکیں۔ اگر وہ اپنی میڈیا و سوشل میڈیا مینجمنٹ اور سٹرٹیجی پر توجہ دے پاتے تو شاید صورت حال ان کے حق میں بہتر ہوتی۔ ان کے اچھے کام پس منظر میں چلے گئے اور ٹرولنگ کو کاؤنٹر نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے صوبائی پولیس چیف کے عہدے پر فائز انتہائی سینئر آفیسر کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا۔