صحرائے چولستان میں ہونے والی جیپ ریلی پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی شوقین افراد کو اپنی جانب متوجہ کر چکی ہے۔ یہ کھیل بظاہر جتنا آسان اور سستا لگتا ہے دراصل اتنا ہی مشکل اور مہنگا ہے۔ ریس کے لیے خاص طور پر گاڑی تیار کی جاتی ہے جس کی لاگت لاکھوں سے نکل کر کروڑوں روپے میں جا چکی ہے۔ صحرائی ٹریک کی مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں۔
میں چند دوستوں کے ساتھ گزشتہ چند سال سے اس خوبصورت فیسٹیول میں شریک ہوتا ہوں۔ ماضی میں یہ اتنا شاندار نہیں تھا اور زیادہ تر انتظامات مقامی سطح پر کیے جاتے تھے لیکن حکومت اور ٹوررازم ڈیپارٹمنٹ کی توجہ ملنے کے بعد اسے باقاعدہ فیسٹیول کا درجہ مل چکا ہے۔ رونی پٹیل، مسز رونی، نادر مگسی اور سلطان ٹیم سمیت دیگر کلبز اس ریس کی پہچان ہیں۔
اس مہنگے کھیل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریس میں حصہ لینے کے لیے آنے والی ایک گاڑی کے ساتھ ایک پورا قافلہ صحرائے چولستان پہنچتا ہے۔ جس گاڑی کو ریس کے لیے تیار کیا جاتا ہے اسے عموماً بذریعہ سڑک چلا کر لانے کے بجائے لوڈ کرکے صحرا تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایک ریسر کے ساتھ لگ بھگ تیس چالیس افراد کا پورا قافلہ صحرا میں پہنچتا ہے۔ ان سب کی رہائش کے لیے خیمے لگائے جاتے ہیں۔ ریس میں شریک گاڑی کے لیے خاص مکینک آتے ہیں، کھانا پکانے کے لیے باورچی اور دیگر عملہ ہوتا ہے، کچن اور واش روم سمیت دیگر انتظامات بھی کیے جاتے ہیں۔
صحرا میں کھانے پینے سمیت دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی جیپ ریلی نہ صرف ہر سال مقبولیت اختیار کرتی جا رہی ہے بلکہ یہ پاکستان کا ریونیو بڑھانے کا بھی بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔ شائقین کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ چولستان کے بعد اب تھل میں بھی نسبتاً چھوٹے ٹریک کے ساتھ بھی جیپ ریلی کا آغاز ہو چکا ہے جہاں لیہ میں ہمارے دوست شیخ کاشف اور ان کے بیٹے کے کیمپس لگتے ہیں یعنی پنجاب کے صحرا میں جیپ ریلی کے دو اہم فیسٹیول منعقد ہونے لگے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ جنوبی پنجاب میں نوابوں کے بسائے شہر خصوصاً بہاولپور آج بھی ٹاؤن پلاننگ کی عمدہ مثال ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں شہر ڈیزائن کرتے وقت اگلے کئی سو سال کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ اس وقت کی ریاست بہاولپور میں عوام کے لیے کیے گئے انتظامات کو خودمختار بنایا گیا۔ مثال کے طور پر بہاولپور کی تاریخی صادق مسجد کے نیچے لگ بھگ ایک ہزار دکانیں ہیں جن کی آمدن مسجد کے لیے وقف ہے۔ اس مسجد میں آج بھی چندے کے لیے کسی قسم کی اپیل یا باکس نہیں رکھا جاتا، اسی طرح نواب کے بنائے سکولوں اور ہسپتالوں کے ساتھ بھی جاگیریں وقف ہیں جن کی آمدن سے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے اس تاریخی اہمیت کے حامل صحرائے چولستان میں ایسے قدیم قلعے، مندر، مساجد اور دربار بھی ہیں جو وطن عزیز کے قیمتی تاریخی اثاثہ ہے لیکن بدقسمتی سے عدم توجہی کا شکار ہے۔ میں انہی تاریخی قلعوں کی کھوج میں صحرائے چولستان گیا تو یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ ہمارے صحرا میں موجود قدیم اور تاریخی قلعے آہستہ آہستہ منہدم ہو رہے ہیں خاص طور پر قلعہ موج گڑھ، قلعہ جام گڑھ اور قلعہ میر گڑھ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ان قلعوں کی چھت گر چکی ہے، اکثر جگہ دیواریں کھنڈر کا ڈھیر بن چکی ہیں۔
قلعہ موج گڑھ تو چند ٹوٹی پھوٹی دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں باقی رہا اور ہوا چلنے پر ان دیواروں سے بھی مٹی گرنے لگتی ہے، قلعہ میر گڑھ اپنے ہی پتھروں کے ڈھیر سے بھرا ہوا ہے۔ ایک انتہائی تاریخی قلعہ مروٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے جہاں چند سیڑھیاں ایک دیوار ماضی کی تلخ داستان سنا رہی ہے۔ یہ اس دھرتی کے بہادری کی وہ تاریخ ہے جسے محفوظ کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن ریاست کی بے حسی باعث حیرت ہے۔ دنیا بھر میں قومیں اپنے تاریخی ورثہ کی حفاظت کرتی ہیں، اپنے کلچر، تہذیب اور تاریخ کو اگلی نسل تک ایک امانت کے طور پر منتقل کیا جاتا ہے بدقسمتی سے پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
مجھے خدشہ ہے کہ اگر ریاست نے توجہ نہ دی تو جو قلعے میں دیکھ آیا ہوں وہ بھی اگلے چار پانچ برس میں مکمل ور پر ختم ہو جائیں گے۔ قلعہ مروٹ اس کی واضح مثال ہے۔ میں، آپ اور ہماری اگلی نسلیں شاید کبھی نہیں جان پائیں گے کہ یہ قلعہ کیسا تھا؟ اگر حکومت جیپ ریلی کے موقع پر ہی بچ جانے والے ان قلعوں، مندروں، درباروں اور مساجد تک رسائی آسان بنا دے، سیاحوں کی راہنمائی کی جائے اور اس خطے کی قدیم تہذیب کو دنیا بھر کے سامنے پیش کیا جائے تو سیاحت کی مد میں ہی پاکستان بے پناہ ریوینیو بڑھا سکتا ہے۔ مجھے اس دوران لال سہانرا میں موجود ایک ریسرچ لیبارٹری دیکھنے کا بھی موقع ملا جہاں صحرائی زندگی کو بچانے کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے۔
شیخ زید بن النیہان ریسرچ سنٹر کے نام سے صحرا کے بیچوں بیچ آبادی سے دور موجود اس لیبارٹری میں موجود ماہرین کی کوششوں سے پاکستان آنے والا مہاجر پرندہ تلور اب پاکستان میں افزائش نسل شروع کر چکا ہے، اسی طرح چولستان کا نایاب ہرن مقامی شکاریوں کی وجہ سے مکمل طور پر پاکستان سے ختم ہو چکا تھا جس کا جوڑا بیرون ملک سے لا کر اس کی افزائش ہوئی اور پاکستان اپنے اس مقامی جانور کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان دوستی کی بہترین مثال ہے۔
عرب امارات کی جانب سے جنوبی پنجاب میں متعدد ہسپتال، واٹر فلٹریشن پلانٹ، سکول، کالجز، پل اور ریسرچ سینٹر بنائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ہوبارہ فاؤنڈیشن کا عملہ بہت متحرک ہے۔ میں صحرا میں موجود پانی ختم ہوتی تاریخ کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اگر ریاست خود اس پر توجہ نہیں دے پا رہی تو اس صحرائی تہذیب، کلچر اور تاریخ کو محفوظ بنانے اور اسے سیاحت کے درجے تک پہنچانے کے لیے اپنے اسلامی دوست ملک عرب امارات سے ہی بات کر لے۔
پاکستان خصوصاً چولستان و گرد و نواح کی تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے، انہیں ان کی اصل حالت میں بحال کرنے اور ان تک صحرا کے بیچوں بیچ راستے نکالنے کے لیے عرب امارات، ہوبارہ اور پاک فوج مل کر ایک ایسا میگا پراجیکٹ تشکیل دے سکتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے آئے بلکہ ایک قدیم تہذیب اور تاریخ بھی دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کر لے۔ اگر فوری طور پر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو ہمارے پاس اگلی نسل کو دینے کے لیے نہ کوئی داستان ہوگی، نہ عمارت اور نہ ہی کوئی تہذیب۔ ہم اپنی شاندار تاریخ اور بہادر جنگجووں کی یادگاریں ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔