بڑی تحریک اور انقلاب کی بنیاد چھوٹے علاقوں اور غریب لوگوں سے ہی جنم لیتی ہے۔ اگر کوئی تحریک کسی بڑے شہر سے جنم لے تو اس میں بھی اہم کردار ادا کرنے والوں کی اکثریت پسماندہ علاقوں سے ہوتی ہے۔ محنت کش مزدور کچھ کر دکھانے کا عزم کر لیں تو پھر ہر خوف سے بالاتر ہو کر اپنا کام کر گزرتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک خونی انقلاب کے ہی نعرے لگائے گئے حالانکہ ہماری ضرورت تعمیری انقلاب ہے۔
سوشل میڈیا پر سندھ کے صحرائی علاقوں یعنی تھرپارکر کی بہت بھیانک عکاسی ہوتی ہے۔ ہمیں یہی معلوم ہے کہ صحرائے تھر میں علاج کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی پینے کا پانی دستیاب ہے۔ خواتین ہر روز میلوں سفر کرکے پانی بھرنے جاتی ہیں اور زچگی کے دوران بڑے شہر کے ہسپتال تک پہنچنے سے پہلے مر جاتی ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ تھر ایسا ہی تھا۔ ہم نے پیاس سے بلکتا اور دم توڑتا تھر ہی دیکھا تھا۔ مختلف این جی اوز اور رفاحی اداروں نے تھر میں کنویں کھودنے اور نلکے لگانے کے نام پر لاکھوں ہی نہیں کروڑوں روپے کے فنڈز اکٹھے کیے۔ ان میں سے بہت سے اداروں نے تھر میں فلاحی کام کیے لیکن ایسے نام نہاد اداروں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے تھر کے نام پر اپنی جیبیں بھریں۔
اگلے روز سینئر صحافیوں کے ہمراہ ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ آف سندھ کے ڈائریکٹر حزب اللہ کے ساتھ اندرون سندھ جانے کا موقع ملا۔ ہم دو تین دن اندرون سندھ اور خاص طور پر صحرائے تھر کے علاقوں میں گھومتے رہے۔ تھرپارکرکے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شیخ ریاض نے بتایا کہ اس علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے ہمیں ڈرانے کے بجائے خود کہا کہ آپ ساری رات بے فکر ہو کر گھومتے پھرتے رہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ یہاں اینگرو اور دیگر پراجیکٹ کی وجہ سے جو مقامی افراد متاثر ہوئے ان کے لیے چار ارب کے بجٹ سے حکومت نے ماڈل ویلج بنائے ہیں جہاں ڈسپنسری، ہسپتال، سکول، کھیل کے میدان، مسجد اور دیگر سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ صرف تھرپارکرکے محنت کش ہر سال پاکستان کو گائے، بکریاں اور اونٹ پر مشتمل لگ بھگ 22 لاکھ لائیو سٹاک مہیا کر رہے ہیں۔
مجھے مٹھی جا کر حیرت ہوئی۔ یہاں ہندو کمیونٹی کی اکثریت ہے۔ یہ چند سال قبل تک سندھ کا انتہائی پسماندہ علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ اس بار یہاں صحرائے تھر کا قدیم کلچر اور جدید دنیا کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملا۔ مٹھی کے اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن فرید حنیف کی یہ بات درست ثابت ہوئی کہ مٹھی جیسا صفائی پسند علاقہ پورے ملک میں کہیں نظر نہیں آتا۔ یہیں ہنس مکھ اے سی تحصیل اسلام کوٹ جامن داس سے بھی ملاقات ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام کوٹ میں کوئلہ سے چلنے والا پاور پلانٹ پاکستان کو بجلی مہیا کر رہا ہے تو دوسری طرف تھرپارکر کی بہادر غریب خاتون مائی بختاور کے نام سے مائی بختاور ایئرپورٹ بھی آپریشنل ہو چکا ہے جس سے چائنیز سمیت دیگر غیر ملکی ماہرین کو مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے کے لیے اسلام کوٹ لایا جاتا ہے۔ ڈویژنل ڈائریکٹر میرپور خاص غلام رضا بھی اپنے ڈویژن کی ترقی کا حال سنانے کے لیے بے تاب نظر آئے۔ یہ ایسی جنونی ٹیم ہے جو تھرپارکر کا نقشہ بدل رہی ہے۔ جن علاقوں میں کوئی آفیسر پوسٹنگ کو تیار نہ ہوتا تھا وہاں یہ لوگ تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
تھرپارکر کی ترقی میں جہاں انتظامی آفیسرز کی محنت شامل ہے وہیں اس کا کریڈٹ سندھ حکومت کو بھی جاتا ہے جس نے یہاں کے غریب لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا طویل مشن شروع کیا اور تھر میں جگہ جگہ آر او پلانٹ لگا کر عوام کو صاف اور میٹھے پانی تک رسائی دی ہے جبکہ علاج معالجہ کے لیے جدید مشینری سے مزین کارڈیالوجی ہسپتال بنائے۔ اب تھر کے باسیوں کو علاج کے لیے کراچی یا حیدرآباد نہیں جانا پڑتا۔
تھر میں صحرا کے قدیم کلچر کی نمائندگی کرنے والی خواتین آج بھی کلائی تک سفید چوڑیاں پہنے منہ پر ساڑھی کا پلو گرائے پانی بھرنے آتی ہیں لیکن اب ان کی مشقت ماضی کی نسبت بہت کم ہو چکی ہے کیونکہ صاف پانی کے پلانٹ ان کے گھروں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تھرپارکر کی تہذیب و ثقافت سے جڑی یہ خواتین انتہائی بہادر، محنتی اور جفا کش ہیں۔ ہمیں کھیتی باڑی اور پانی لانے سے لے کر دستکاری تک تھرپارکر کی خواتین متحرک نظر آئیں۔ یہ سب بی بی شہید کے نام کی مالا جپتی ہیں۔ مجھے یہاں گھوم پھر کر یہ محسوس ہوتا رہا کہ تھرپارکر میں ہونے والے یہ اقدامات سندھ میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک مزید مضبوط کر رہے ہیں۔
تھرپارکرکے اس دورے کے دوران کئی ایسے اقدامات نظر آئے جنہیں پاکستان بھر میں اپنانا چاہیے۔ اس وقت ملک کا ایک اہم مسئلہ صاف پانی کی قلت ہے۔ ہمارا زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے تو دوسری جانب ہر سال قدرت ہمیں بارش کی صورت میں جس قدر صاف پانی سے نوازتی ہے ہم وہ بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ ڈی جی پی آر سندھ کے ڈائریکٹر حزب اللہ نے بتایا کہ سندھ حکومت 2008 سے بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے ڈیم بنا رہی ہے اور اب تک پچاس سے زیادہ چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جا چکے ہیں جہاں بارش کا پانی محفوظ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے ہمیں ایسے ڈیم دکھائے جہاں موٹرز اور پائپ لائنز لگا کر جمع شدہ پانی سے سارا سال زرعی رقبہ کو سیراب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تھر کے صحرا کا بڑا حصہ ہرا بھرا ہو چکا ہے۔ یہی پانی پینے کے کام بھی آ رہا ہے۔ بارش کا صاف پانی محفوظ کرنے کے لیے پنجاب کو بھی یہ ماڈل اپنانا چاہیے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے این او سی میں پانی چوس کنویں بنانے کی شرط رکھی جائے اور حکومت کی جانب سے میدانی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم اور روایتی چھپڑ سسٹم بنایا جائے تاکہ زیر زمین کم ہوتے صاف پانی کے مسئلہ کو بروقت حل کیا جا سکے۔