دلیل حق کسی بھی کام کی زیادتی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اسی لیے اسلام اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی امیج بلڈنگ، پروجیکشن اور کمیونیکیشن کے بہترین ذرائع ہیں۔ سرکاری و نجی اداروں کے لیے ایک حد تک یہ بہترین میڈیم سمجھے جاتے ہیں۔ بزنس اور مارکیٹنگ تک سوشل میڈیا پر منتقل ہو چکی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سوشل پلیٹ فارمز یا ڈیجیٹل میڈیا نے بیشمار پاکستانیوں کو روزگار مہیا کیا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ سے ای کامرس تک ایک طویل فہرست ہے۔ اگر یہ ذرائع نہ ہوتے تو شاید جرائم اور خودکشیاں دونوں ہی بے قابو ہو چکی ہوتیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جرائم کو کنٹرول کرنے میں پولیس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بزنس کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور خصوصاً پنجاب میں بیوروکریسی سوشل میڈیا کا بے جا استعمال کرتے ہوئے پورا نظام ہی درھم برھم کرنے کو ہے۔
پنجاب پولیس کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور اسے محکمہ کی امیج بلڈنگ سے کہیں آگے لیجاتے ہوئے پرسنل پروجیکشن تک پہنچا چکے ہیں۔ ذاتی پروجیکشن ایک حد تک ہو تو بری نہیں کہ ہر شخص کے اندر قدرت نے فطرتاً سراہے جانے کی تمنا رکھی ہے لیکن اگر یہ پروجیکشن اخلاقی و قانونی جرم کی حد تک بڑھ جائے تو خطرناک ہے۔ پنجاب پولیس اپنے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور کی قیادت میں اسی خطرناک مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ٹک ٹاک جس ضلع کے ڈی پی او بناتے رہے انہی کے ضلع میں وارداتیں بھی عروج پر رہیں۔ ایک پولیس آفیسر کی ٹک ٹاک دیکھی جس میں صاحب بہادر نے اپنے اہلکاروں کو لائن میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک اہلکار کی 9 دن کی چھٹی کی درخواست ہے۔ صاحب بہادر ٹک ٹاک ریٹنگ کے چکر میں اسے کہہ رہے ہیں کہ صرف 9 دن کی چھٹی کیوں لے رہے ہو؟ والدین کے پاس جانا ہے تو زیادہ دن کی چھٹی لو۔ یہ اتنا مضحکہ خیز ہے کہ جو شخص بھی پنجاب پولیس کے پی ایس پی افسران اور رینکرز کا کمیونیکیشن بائونڈ جانتا ہے وہ بے ساختہ قہقہے لگانے لگتا ہے۔ جہاں پولیس اہلکار ایک ایک چھٹی اور گھر کے قریب پوسٹنگ کے لیے باقاعدہ سفارشی ڈھونڈتے ہیں، رشوت دیتے ہیں اور افسران سے گالیاں سنتے ہیں وہاں 9 دن کی چھٹی کو ایک ایسے آفیسر کم قرار دے رہے ہیں جو محکمہ میں نئے نہیں ہیں اور ان کی داستانیں ان کے سابقہ ماتحت سناتے رہتے ہیں۔
دفاتر اور کھلی کچہریوں میں شہریوں کے مسائل سنتے ہوئے ان کی پرائیویسی کو تباہ کرنے سے لے کر قومی سطح پر مشہور مقدمات میں نامزد ملزم کو پروٹوکول کے ساتھ ٹریننگ کالج بلانے اور شہر کے بدنام زمانہ جواری کو پولیس آفس پروٹوکول دینے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ اگلے روز ایک سینئر آفیسر بتا رہے تھے کہ ان کے ضلع میں ایک "کن ٹٹا " ٹک ٹاکر بن گیا اور المیہ یہ ہوا کہ ڈی پی او اب اس کی مرضی کے بنا کوئی فیصلہ نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ گرائونڈ میں کرکٹ ٹورنامنٹ کی اجازت کے لیے بھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر کی سفارش مسترد کر دی گئی کہ پہلے اسی ٹک ٹاکر کو ساتھ لائیں۔
پنجاب بھر میں جرائم پیشہ افراد ٹک ٹاک کا سہارہ لے کر پولیس افسران کے سامنے "معزز" بن چکے ہیں اور تھانے چلاتے ہیں کیونکہ تھانیدار جانتا ہے ان کی ایک ٹک ٹاک یا ٹویٹ پر اسے لائن حاضر کر دیا جائے گا۔ رینکرز میں یہ خوف سسٹم کو مزید تباہ کر رہا ہے۔ ٹک ٹاک اور ویڈیوز کا یہ رجحان اوپر سے نیچے تک سامنے آ رہا ہے۔ اگلے روز لاہور میں جوڈیشل کالونی فیز ٹو کی انتظامیہ کی جانب سے بنائی ایک ویڈیو دیکھی۔ اس ویڈیو میں ایک رہائشی کے گھر کے دروازے کی کنڈی نہیں لگی ہوئی تھی لیکن دروازہ بند تھا۔
سکیورٹی عملہ نے نہ صرف گھر کے نمبر، گیٹ اور باہر کی ویڈیو بنائی اور رہائشی کی لاپروائی پر کمنٹری کی بلکہ خود ہی گیٹ مکمل کھول کے اندر کی بھی ویڈیو بنائی۔ جس سوسائٹی کو شرفا کا علاقہ سمجھا جاتا ہے اور جہاں یہ امید کی جاتی ہے کہ قانون اور اخلاقیات کی پاسداری ہوگی وہاں انتظامیہ کی جانب سے ہی چادر چار دیواری کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
ضرورت تو یہ تھی کہ انتظامیہ اپنے سکیورٹی یا انتظامی عملہ کی اس حرکت پر نوٹس لیتی لیکن الٹا یہ ہوا کہ سوسائٹی انتظامیہ کی جانب سے کوآرڈی نیٹر لگائے گئے شیخ انعام اللہ نامی غیر منتخب شخص نے ہر اس شخص کو سوسائٹی کے واٹس ایپ گروپ سے ریموو کرنا شروع کر دیا جس نے اعتراض کیا کہ گھروں میں پردہ دار خواتین ہوتی ہیں لہٰذا ایسے دروازہ کھول کر اندر جھانکنا اور ویڈیو بنانا درست نہیں۔
مجھے صحیح بخاری کی حدیث یاد آتی ہے کہ رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا ہے "اگر کوئی شخص تمہاری اجازت کے بغیر تمہیں جھانک کر دیکھے اور تم اسے کنکری مار دو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے"۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کے منفی اور غیر قانونی استعمال کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ وہ نشہ ہے جو مساجد اور اعتکاف تک پہنچ چکا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ کسی بھی منفی چیز کا مسلسل استعمال اسے اس عمل کا عادی بنا دیتا ہے اور پھر گناہ بھی گناہ نہیں لگتا۔ یہی صورت حال سرکاری دفاتر سے نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں تک نظر آنے لگی ہے۔
چیف جسٹس، وزیراعظم اور دیگر اداروں نے اگر صورت حال کا نوٹس لے کر اسے کنٹرول نہ کیا تو سرکاری دفاتر سے لے کر نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں تک بے حیائی، پرائیویسی کا خاتمہ اور چادر چار دیواری کی توہین نہ صرف عام بلکہ ایس او پیز کا حصہ بن جائے گی۔ جو ملک ہم نے اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے حاصل کیا وہ بے حیائی پر مبنی ٹک ٹاکرز کی کمین گاہ بنتا جا رہا ہے جہاں شرفا کی پگڑیاں محفوظ ہوں گی اور نہ عزت و آبرو۔
ہم شاہراہوں اور بازاروں میں بننے والی ٹک ٹاک ویڈیوز کا رونا روتے تھے کہ ارد گرد موجود فیملیز اور خواتین کی نجی زندگی اور پردہ متاثر ہوتا ہے جو کہ اخلاقی و قانونی طور پر غلط ہے لیکن یہاں معاملہ سرکاری افسران سے لے کر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی انتظامیہ تک پہنچ چکا ہے۔