اس میں دو رائے نہیں کہ سرکاری ملازمین نہ صرف پاکستان کے آزاد شہری ہیں۔ انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی شہری کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ سرکاری ملازمین ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہی ریاستی پالیسیز پر عمل کرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک مخصوص ڈسپلن میں رہنا ہوتا ہے۔
سرکاری ملازم کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت یا عوامی نمائندے کو ووٹ دے سکتا ہے لیکن اسے سیاسی نظریات کا اظہار کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سرکاری ملازم کی حیثیت سے وہ ریاستی نمائندہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے وہ جس سیاسی جماعت کا حمایتی ہو وہ جماعت ریاستی پالیسی کے خلاف ہو لیکن ریاست کے نمائندے کے طور پر سرکاری ملازم کا فرض ہے کہ وہ ذاتی سوچ اور نظریہ کو ایک طرف رکھ کر ریاست کے مفادات، پالیسی اور احکامات پر عمل درآمد یقینی بنائے۔
اگر اس کے لیے ایسا ممکن نہیں تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ایک عام شہری کی حیثیت سے سیاسی عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔ یہاں بھی اہم عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین پر ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ مدت کے لیے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہوتی ہے۔ قوانین کے مطابق سرکاری ملازم بنا اجازت کالم لکھ سکتا ہے اور نہ ہی ٹی وی پروگرامز میں شرکت کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی انسان ریاستی عہدے پر فائز ہو تو وہ کئی رازوں کا امین ہوتا ہے۔ اس کے قلم یا زبان سے نکلا کوئی جملہ ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہاں تک تو بات درست ہے لیکن بدقسمتی سے ریاستی ملازمین ہی ریاستی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر سی ایس پی اور پی ایس پی کلاس کے افسران ملوث ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس طرح محکمے کی پروجیکشن کی آڑ میں ذاتی پروجیکشن کرتے ہوئے ان قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سلسلے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس پر دو رائے سامنے آئی ہیں۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ یہ آرڈر سرکاری ملازمین کی زبان بندی کے مترادف ہے۔ دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازم ملازمت میں آتے ہی ریاستی ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے۔ قوانین پہلے سے موجود ہیں لہذا ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔
میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان کے اس آرڈر سے ماتحت ملازمین خاص طور پر پنجاب پولیس کے رینکرز اہلکار و افسران پریشانی اور کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اس سے پہلے بھی پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا پالیسی جاری کی تھی۔ اس پالیسی کے تحت فوج کی طرح پولیس کو بھی فورسز کے ڈسپلن میں لایا گیا تھا۔ پنجاب پولیس کے افسران و اہلکاروں کو سوشل میڈیا پر پولیس وردی اور شناخت سے منع کیا گیا تھا تاکہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اسی طرح فوکل پرسن کے علاوہ کسی پولیس اہلکار یا افسر کو میڈیا پر بیان دینے سے روکا گیا تھا۔
پولیس ملازمین کو وردی میں ٹک ٹاک، اسلحہ و سرکاری گاڑی اور دفاتر کی نمائشی ویڈیوز اور تصاویر بنانے سے بھی منع کیا گیا اور گرفتار ملزم کے انٹرویوز کرانے پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پالیسی کے تحت بعض پولیس ملازمین کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی گئی تھی۔ اب ہوا یہ کہ پولیس کمانڈ بدلتے ہی موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے خود ہی اس پالیسی کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ ان اہلکاروں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی گئی جو پنجاب پولیس کی اپنی سوشل میڈیا پالیسی کی دھجیاں اڑا رہے تھے اور سوشل میڈیا پر وردی، اسلحہ و سرکاری گاڑیوں کے ساتھ ٹک ٹاک بنا رہے تھے۔
آئی جی پنجاب نے باقی فورس کو بھی اسی کام پر لگا دیا۔ جو پولیس ملازمین سوشل میڈیا پالیسی جاری ہونے کے بعد اپنے اکاؤنٹس ڈی ایکٹیو کر چکے تھے وہ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ان کے اپنے سربراہ کی سرپرستی میں ان قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں جن کے تحت انہیں روکا گیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ ان کے جن ساتھیوں نے محکمہ کی پالیسی کو بوٹ کی نوک پر رکھا اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونی چاہیے تھی وہی اس عمل پر سراہے جانے لگے۔
جن اہلکاروں کے خلاف ایک دو سال قبل محکمانہ کارروائی ہوئی وہ اس ناانصافی پر کس سے انصاف مانگتے؟ آئی جی پنجاب نے پوری فورس کو اس کام پر لگا دیا جو کہ تعلقات عامہ کے شعبہ کا کام تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے فیلڈ افسران مجرموں کے تعاقب کے بجائے اپنے اپنے کیمرہ مین کے تعاقب میں رہنے لگے۔ فیلڈ افسران کی اکثریت اس حکم سے متفق نہیں تھی۔ یہ ہم جیسوں سے شکوہ کرنے لگے کہ ہم فورس میں کس لیے آئے تھے اور کس کام پر لگا دیئے گئے ہیں لیکن محکمہ کے سربراہ کے احکامات پر عمل درآمد بھی لازم تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افسران و اہلکاروں کی توجہ تقسیم ہونے لگی اور جرائم بڑھنے لگا۔
صرف اس سال ہی لاہور جیسے شہر میں انڈرورلڈ کی دشمنیاں پھر تیز ہوچکی ہیں۔ ایک پولیس آفیسر کی ہی تقریب میں امیر بالاج ٹرکاں والے کے سرعام قتل کے بعد تین روز قبل ایف سی کالج انڈر پاس کی مصروف ترین شاہراہ پر بالاج قتل کیس میں نامزد طیفی بٹ کے بہنوئی کو دن دیہاڑے شہریوں کے سامنے فائرنگ سے قتل کر دیا گیا۔ پولیس ٹک ٹاک میں مصروف ہے اور لاہور کی مصروف شاہراہ پر انڈر ورلڈ اپنی پرانی دشمنیاں نبھاتے ہوئے گولیاں برسا رہا ہے۔ ایسے میں شہری نہ تو تقریبات میں خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی شاہراہوں پر۔
لاہور میں ڈکیت نکلتے ہیں اور ایک ہی رات میں 15 بیس لوگوں کو لوٹ کر باحفاظت واپس چلے جاتے ہیں۔ شیخوپورہ کے پاس سڑک پر کئی گھنٹوں کا ناکہ لگا کر لوٹ مار کی جاتی ہے۔ باقی پنجاب کے بھی یہی حالات ہیں وزیراعظم پاکستان کے احکامات بالکل درست اور وقت کی ضرورت ہیں۔ سرکاری ملازمین کو ڈسپلن میں لانے سے گڈ گورننس بہتر ہونے کی امید ہے لیکن پنجاب پولیس کے ملازمین کنفیوژن کا شکار ہیں۔ وہ وزیراعظم کے احکامات مانیں، پنجاب پولیس کی جاری شدہ سوشل میڈیا پالیسی پر عمل کریں یا پھر آئی جی پنجاب کے ٹک ٹاک احکامات پر عمل کریں؟
یہ ملازمین اس پریشانی کا بھی شکار ہیں کہ پہلے ہی موجودہ آئی جی پنجاب کے احکامات پر انہوں نے بڑی محنت سے سوشل میڈیا پر فالورز بڑھائے ہیں اب وہ وزیراعظم کے احکامات مانتے ہوئے اس کا استعمال بند کر دیں اور کل پھر کوئی آفیسر انہیں ٹک ٹاک پر لگا دے تو دوبارہ سے اتنی محنت کرنا پڑے گی۔
وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ چھوٹے ملازمین کے بجائے بیوروکریسی کو احکامات اور قوانین کا پابند بنائیں کیونکہ تمام تر احکامات کے باوجود سی ایس پی اور پی ایس پی افسران جب قوانین کے برعکس اپنی پالیسی بناتے ہیں تو چھوٹے ملازمین کے دل سے قوانین کا احترام ختم ہونے لگتا ہے۔