میری این ویور (Mary Ann Weaver) امریکا کی معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ اُن کے نام اور کام سے میری آشنائی اُس وقت ہُوئی جب مجھے امریکا سے شایع ہونے والے مشہور جریدے "نیو یارکر" پڑھنے کی باقاعدہ لَت لگی۔ وجہ یہ تھی کہ میری این ویور کی پاکستان کے بارے میں تحقیقی اور انکشاف خیز تحریریں مسلسل چھپ رہی تھیں۔
انھوں نے افغانستان، بلوچستان اور مشہور اور بزرگ بلوچ سیاستدان سرداروں کے بارے میں قسط وار آرٹیکل لکھنے شروع کیے تو اُن کی تحریروں سے میری دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ کوئی ایک عشرہ قبل Pakistan:In the Shadow of Jihad and Afghanistanکے زیر عنوان اُن کی ایک معرکہ آرا کتاب شایع ہُوئی۔ میری این ویور نے اپنے مشاہدات و تاثرات کی بنیاد پر اس کتاب میں خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کے بارے میں احتیاط نہ برتی تو پاکستانی عوام اور ارضِ پاکستان کبھی افغانستان کے مہیب سایوں سے بچ نہیں پائیں گے۔
ہم لوگوں نے مصنفہ کی اس وارننگ کو سنجیدہ لینے کے بجائے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ " یہ ایک جہاد و پاکستان دشمن امریکی صحافی کی متعصبانہ رائے ہے۔" آج ایک عشرہ گزرنے کے بعد میری این ویور کی کچھ پیشگوئیاں درست ثابت ہو رہی ہیں۔ کیسے؟ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں:
افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہُوئے تین ماہ ہونے کو ہیں۔ اُمیدیں تو بہت تھیں کہ طالبان کے مکمل قبضے کے بعد سرزمینِ افغانستان نئے امن سے آشنا ہو گی لیکن بد قسمتی سے اِن تین مہینوں کے دوران افغانستان میں استحکام نہیں آ سکا ہے۔ افغانستان کے وزیر خارجہ، امیر خان متقی، اِسی لیے آجکل اپنے 20رکنی وفد کے ساتھ پاکستان آئے ہُوئے ہیں۔ افغانستان میں روز بروز "داعش" کی دہشت گردانہ وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان خونی اور خونریز وارداتوں سے پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک بجا طور پر پریشان ہیں۔ گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران "داعش" نے کابل سمیت کئی افغانستان کے شہروں اور شہریوں پر کئی قاتلانہ حملے کیے ہیں۔ گزشتہ روز معروف امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے ایک مفصل اور پریشان کن رپورٹ یہ شایع کی ہے کہ سابق افغان فوجی، جنھوں نے امریکیوں سے جدید ملٹری ٹریننگ حاصل کررکھی ہے، طالبان کے ڈر سے "داعش" میں شامل ہو رہے ہیں۔ افغان طالبان نے اس رپورٹ کو "شر انگیز" قراردیا ہے اور کہا ہے کہ اب جب کہ سابق افغان فوجیوں کو امان اور عام معافی دی جا چکی ہے۔
ان کا طالبان کے ڈر سے "داعش" میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن برطانوی اخبار "گارڈین" کا دعویٰ ہے کہ مقتدر طالبان نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جس طرح بعض سابق افغان فوجیوں سے سخت انتقام لیا ہے، اس کارن بھی یہ سابق افغان فوجی "داعش" میں شامل ہو رہے ہیں۔ نومبر 2021 کے پہلے ہفتے "داعش" نے کابل میں افغانستان کے سب سے بڑے ملٹری اسپتال پر حملہ کرکے 25سے زائدبے گناہوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔
اِنہی واقعات و سانحات کی بنیاد پر رُوسی وزیر خارجہ، سرگئی لاوروف، نے 2نومبر2021 کو رُوسی ٹی وی (Rossiya24) کوانٹرویو دیتے ہُوئے کہا: "طالبان کا افغانستان غیر مستحکم ہے۔ اور اس کے منفی اثرات افغانستان کے سبھی ہمسایہ ممالک پر پڑنے کے امکانات ہیں۔" پاکستان بھی تو افغانستان کا فوری ہمسایہ ہے۔ رُوسی وزیر خارجہ نے مزید کہا: " سب پہلے ہماری کوشش یہ ہے کہ غیر مستحکم افغانستان کے منفی اثرات وسط ایشیا کی ریاستوں پر نہ پڑیں۔" روسی وزیر خارجہ کے اس بیان نے طالبان کے افغانستان کی جو تازہ تصویر کشی کی ہے، پاکستان اس پر بجا طور پر متشوش ہے۔
امریکا نے (اپنے بعض مطالبات منوانے کے لیے) افغانستان کا مالی اور سفارتی ناطقہ بند کررکھا ہے۔ مقتدر طالبان اس اقدام پر امریکا سے ناراض ہیں اور پاکستان سے شکوہ کناں بھی کہ وہ امریکیوں کو افغانستان کی طرف مائل اور قائل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کررہا۔ یہ بے بنیاد خیال افغانستان اور پاکستان میں کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکی اقدامات بھی عجب ہیں۔ ایک طرف تو امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن، نے چند دن پہلے افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے 144ملین ڈالرز کی فوری امداد دینے کا اعلان کیا ہے لیکن دوسری طرف اِسی امریکا نے افغانستان کے10ارب ڈالرز منجمد کررکھے ہیں۔
افغان طالبان بار بار امریکا اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ ہمیں ہمارے یہ دس ارب ڈالرز واپس کیے جائیں۔ اِس ضمن میں طالبان حکومت میں وزارتِ خزانہ کے ترجمان، احمد ولی حکمل، نے کہا ہے:"امریکا کی طرف سے ہمارے ان فنڈز کو روکنا غیر اخلاقی بھی ہے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھی۔" امریکا مگر ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ اس انکار کے کئی منفی اثرات بھی پاکستان کی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں۔
ان فنڈز کے منجمد کیے جانے کے کئی نقصانات سامنے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان کے بینکوں کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔ افغان کرنسی کی بے قدری بڑھ رہی اور ڈالر کی قیمت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں ڈالروں کی بے پناہ کمی کی وجہ سے طالبان حکومت کو اپنے ضروری بِلز ادا کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ حتیٰ کہ افغانستان جن ہمسایہ ممالک (ایران، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان) سے بجلی خرید رہا ہے، ڈالر نہ ہونے سے ان ممالک کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں۔
اور یوں افغانستان شدیدلوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے۔ افغانستان سینٹرل بینک کے ایک بورڈ ممبر، شاہ محرابی، نے دُنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان کے ڈالرز یونہی روکے رکھے گئے تو افغان معیشت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور یوں یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے افغانیوں کے ریلوں میں لا متناہی اضافہ بھی ہو جائے گا۔ شاہ محرابی کا کہنا ہے کہ "افغانستان کو روزانہ 150ملین ڈالرز کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر افغانستان کی اقتصادی اور عوامی حالت مکمل تباہی کے کنارے پہنچ جائے گی۔ اور افغانستان کے بینکس بند ہو جائیں گے۔"افغانستان میں ڈالرز کی کمی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کئی دولتمند افغانی پاکستان سے ڈالر خرید کر افغانستان اسمگل کررہے ہیں اور بے تحاشہ منافع کما رہے ہیں۔ اس وجہ سے بھی پاکستانی روپے پر دباؤ آ رہا ہے۔
ایک مشہور پاکستانی ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان سے روزانہ 15ملین ڈالرز افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں۔ چونکہ افغان معیشت تقریباً تحلیل ہو چکی ہے، اس لیے افغانستان میں آٹے کی قلت بھی بڑھ گئی ہے۔ اس سے عالمی اسمگلروں کی چاندی ہو گئی ہے اور وہ پاکستان سے آٹا اور گندم خرید کر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں جو روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اگر مقتدر طالبان کے افغانستان میں حالات یہی رہے تو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ بھوک اور بے روزگاری کے مارے مزید لاکھوں افغانی پاکستان کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں۔ یہ آثار و احوال پاکستان کے لیے باعثِ تشویش ہیں۔