Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Tanveer Qaisar Shahid/
  3. Quaid e Azam Ke Muandeen Ko Dandan Shikan Jawab

Quaid e Azam Ke Muandeen Ko Dandan Shikan Jawab

مجھے سب سے پہلے پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا ہے جنھوں نے محبت و اکرام سے مجھے یہ تحقیقی اور چشم کشا کتاب تحفتاً عنایت فرمائی ہے۔ مارکیٹ میں تو شاید یہ معرکہ خیز کتاب ابھی نہیں پہنچی ہے۔

پاکستان کے75ویں یومِ آزادی پر کسی کرم فرما کی طرف سے ایسی قیمتی کتاب کا ملنا ایک عظیم نعمت سے کم نہیں ہے۔ چھ صد سے زائد صفحات پر پھیلی یہ تحقیقی اور تفتیشی تصنیف بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سیاسی معرکوں، نظریات، نجی کردار اور پاکستان کے لیے اُن کی ناقابلِ فراموش خدمات پر مشتمل ہے۔

اس شاندار اور منفرد کتاب کا عنوان ہے:Secular Jinnah and PAKISTAN، What the Nation Does، t Know اور اس کی مصنفہ کا اسمِ گرامی ہے: سیلینا کریم۔ سیلینا کریم صاحبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برطانیہ میں ایک پاکستانی مسلم خاندان میں پیدا ہُوئیں، آئی ٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، آئی ٹی ہی کے ایک برطانوی محکمے میں اعلیٰ ملازمت بھی کرتی ہیں لیکن اُن کا دل مملکتِ خداداد پاکستان اور بانی پاکستان کے عظیم الشان کردار کے ساتھ اٹکا ہُوا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ اُن کی محبت اور عقیدت کا یہ عالم ہے کہ مصنفہ سیلینا کریم نے اپنے صاحبزادے کا نام بھی "جناح صاحب" رکھاہے۔ وہ پورے احترام اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ اپنے بیٹے کا نام پکارتی ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتی ہیں۔ سیلینا کریم کی انفرادیت یہ ہے کہ اگرچہ وہ پاکستان کم کم تشریف لائی ہیں لیکن مملکتِ خداداد پاکستان اور بانیِ پاکستان کی عظمتوں کو دُنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لیے، پوری کمٹمنٹ اور محبت کے ساتھ، تاریخِ پاکستان میں پوری طرح غوطہ زَن ہیں۔

جیساکہ زیر نظر کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے، مصنفہ نے مستند دستاویزات اور ٹھوس تاریخی حقائق کی اساس پر قارئین پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ محمد علی جناح نہ تو پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کے آرزو مند تھے اور نہ ہی اس مملکت کو کٹر مذہبی ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے بلکہ وہ تو اسلامی نظریات و افکار اور اقدار کی روشنی میں پاکستان کو اصل جمہوری مملکت بنانے اور دیکھنے کی خواہش اور تمنا رکھتے تھے۔ اُن کے بے مثل کردار میں بھی اِنہی اُصولوں اور عناصر کا عکس نظر آتا ہے۔

قائد اعظم نے جب بھی پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور چلن کی بات ارشاد فرمائی، ہمیشہ ساتھ ہی اسلامی نظریات کا ذکر بھی فرمایا۔ اس بارے میں اُن کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ یہ تو ہماری اجتماعی بدقسمتی بن گئی ہے کہ پچھلے سات عشروں سے زائد عرصے میں قائد اعظم کے پاکستان میں نہ تو جمہوریت کو مکمل استحکام مل سکا ہے اور نہ ہی یہاں اسلامی نظام کو آگے بڑھنے کے مواقعے میسر آ سکے ہیں۔ ہاں پاکستان کی نصف زندگی پر آمریت کے بھاری سائے ضرور لہراتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے افراد اور گروہوں کی کمی نہیں ہے جو دانستہ اس فکر کو آلودہ کرنے کی سعی کرتے رہے ہیں کہ قائد اعظم پاکستان میں کسی خاص نظام کی ترویج بارے واضح ہی نہیں تھے۔ اس سے بڑی فکری بددیانتی ہو ہی نہیں سکتی۔

یہ بھی ہماری بد نصیبی ہے کہ پاکستان میں فضا کو اپنی ڈھب کی پاکر کئی افراد اور گروہوں نے قائد اعظم ؒ کے عظیم المرتبت کردار کے حوالے سے منفی سوالات اٹھانے کی کوششیں کی ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں کہ راقم کو لاہور میں رہائش پذیر ایک عزیز اور دیرینہ دوست نے تین ایسی کتابیں ارسال فرمائیں جو سبھی قائد اعظم پر متنوع قسم کے الزامات پر مشتمل تھیں۔

ان کتابوں کے مصنف کراچی کے رہنے والے ایک مشہور شخص تھے اور ابھی حال ہی میں اُن کا انتقال ہُوا ہے۔ اس ایک مثال سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قائد اعظم کے لاتعداد احسانات اور مہربانیوں کے باوصف پاکستان میں ایسے افراد اور گروہوں کی کمی نہیں ہے جو اَب بھی بانیِ پاکستان کے بارے میں اپنے دلوں میں کرودھ اور کینہ رکھتے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کو قدم قدم پر مسکت اور مدلل جواب دینا چاہیے۔ قومی سطح پر اگست کا مہینہ تو اس مہم کے لیے خاص کر دینا چاہیے۔

نوٹنگھم (برطانیہ) میں مقیم مصنفہ سیلینا کریم صاحبہ نے بھی زیر نظر کتاب میں معاندین ِ قائد اعظم کو جواب دینے کی کامیاب اور بھرپور کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں اپنے ہر جواب کے لیے مستند تاریخی حوالہ جات کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ اُن کے جوابات کے سامنے قائد اعظم پر تنقید کرنے والا کوئی بھی شخص، گروہ یا ادارہ زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا۔

قائد اعظم کے شفاف کردار پر چھینٹے اُڑانے والوں میں ایم سی چھاگلہ بھی تھے اور اسٹینلے وولپرٹ بھی، ڈاکٹر رفیق زکریا بھی تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد بھی، لوئی فشر بھی تھے اور لیپری و پروفیسر آئن ٹالبوٹ بھی۔ پاکستان میں بھی ایک ایسے صاحب ہیں جنھوں نے قائد اعظم کے مذکورہ معاندین کے الزامات کو اپنے آرٹیکلز میں مزید آگے پھیلانے کی کوشش کی۔

زیر نظر کتاب میں مصنفہ، محترمہ سیلینا کریم، نے بڑی احتیاط، شائستگی اور غیر متعصبانہ اسلوب میں، ایک ایک کرکے، تحقیق کے نشتر سے یہ جائزہ لینے کی سنجیدہ کوشش کی ہے کہ لوئی فشر، ایم سی چھاگلہ، آئن ٹالبوٹ وغیرہ دراصل کون تھے؟ اور کن وجوہ کی بنیاد پر انھوں نے قائد اعظم کے خلاف تہمتیں اچھالنے کی ناکام کوشش کی۔ سیلینا کریم نے جس محنت اور شوق کے ساتھ ان افراد کے چہروں سے نقاب اُتارا ہے، راقم کے لیے تو یہ تحقیق نہایت حیرت خیز بھی ہے اور انکشاف انگیز بھی۔

مثال کے طور پر قائد اعظم ؒ پر الزامات عائد کرنے والے اولین افراد میں لوئی فشر سرِ فہرست ہیں۔ سیلینا کریم رقمطرازہیں:" لوئی فشر امریکی صحافی تھا۔ گاندھی جی سے قربت رکھتا تھا، لیکن وہ صہیونی تحریک کا رکن بھی تھا۔ اُس نے ترکوں کے خلاف جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس میں تو اب کوئی شک ہی نہیں ہے کہ لوئی فشر اس لیے قائد اعظم کے خلاف تہمتیں تراشتا تھا کیونکہ قائد اعظم فلسطین میں اسرائیل کے قبضے اور غلبے کے سخت مخالف تھے۔

ایم سی چھاگلہ (جو کبھی قائد اعظم کے اعزازی سیکریٹری بھی رہے تھے اور آزادی کے بعد بھارت کے چیف جسٹس بنے) کے قائد اعظم کے خلاف الزامات کی قلعی کھولتے ہُوئے مصنفہ نے لکھا ہے کہ وہ قائد اعظم کے اس لیے مخالف بن گئے تھے کہ محمد علی جناح نے بمبئی ہائیکورٹ میں اُن کی سازشوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ یوں دیکھا جائے تو زیر نظر کتاب قائد اعظم کے دشمنوں کے چہروں پر پڑے نقاب نوچ ڈالتی ہے۔ اس کتاب کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہیے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran