کرونا پاکستان میں آچکا، یہ کیسے آیا اس کی تحقیق ضروری ہے اور ذمے داری کا تعین بھی، جب پورے پاکستان کو لاک ڈاؤن کیا جا رہا تھا تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے چند ائیرپورٹس اور کچھ سرحدی داخلی راستوں کومحفوظ نہیں بنا سکے۔ جب ہم نے ووہان جیسے مصیبت زدہ شہر سے اپنے ہی بچوں کو واپس نہ لانے کا بڑا اور جرات مندانہ فیصلہ کر لیا تھا تو پھر ہم تافتان سمیت دیگر جگہوں پر وہ کمٹ منٹ کیوں نہیں دکھا سکے۔ ہم نے لاک ڈاؤن بھی کر کے دیکھ لیا مگر کرونا کے پھیلاو کی رفتار میں کمی نہیں آ سکی اور اس کے ساتھ ہی بھوک اور لاچاری کے وائرس نے بھی گھنٹیاں بجانی شروع کر دیں لہٰذا وزیراعظم کو ملک بھر میں گڈز ٹرانسپورٹ کی بحالی کا فیصلہ لینا پڑا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بیک اینڈ پر بھی کام کرنے کی اجازت دینی پڑے گی ورنہ مال بردار ٹرکوں میں مال کہاں سے بھرا جائے گا؟
ابھی کرونا وائرس نہیں آیا تھا تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمارا گروتھ ریٹ دو فیصد سے بھی کم ہوچکا ہے مگر کرونا کے حملے کے بعدملک بھر میں صنعتیں اور سڑکیں بند کر دی گئی ہیں یعنی آپ کے روپے کی گردش رک گئی ہے۔ کسی بھی حکومت کی آمدن دو ہی طریقوں سے ہوتی ہے جس میں پہلا طریقہ کرنسی کی گردش ہے۔ کرنسی کی یہ موومنٹ ٹیکس کی کلیکشن میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔ ٹیکس دو طرح سے اکٹھا ہوتا ہے، ایک طریقہ فکس اور لازمی ٹیکس ہے جیسے آپ کی دکان اور مکان پر ٹیکس، آپ کی گاڑی اور ٹی وی پر ٹیکس مگر ٹیکس کی ووسری کلیکشن سو فیصد ایکٹیویٹی سے مشروط ہے یعنی آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ٹال ٹیکس ادا کرتے ہیں، پٹرول پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، کپڑے خریدتے ہیں تو جنرل سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو پہلے ہی بجٹ ٹارگٹ پورے کرنے میں ریکارڈ خسارے کا سامنا تھا اور لاک ڈاون کے بعد یہ ٹارگٹ پورے کرنا تو کیا، اس مدت میں، ان کے پچاس فیصد تک پہنچنا بھی مشکل ہوجائے گا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گاکہ ہم اگلا بجٹ ہی تیار نہیں کر سکیں گے۔
ہم لاک ڈاون پر باہر کی دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چین، اٹلی، سپین وغیرہ کی ویڈیوز شیئرکررہے ہیں مگر کیا ہم نے ان ممالک کی جی ڈی پی اور فی کس آمدن دیکھی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ہمارا ایک کروڑ یا ارب پتی شخص تو ایک سال تک قرنطینہ انجوائے کرسکتا ہے مگر ہمارا ایک رکشہ ڈرائیور کتنی دیر گھر میں بند رہ سکتا ہے۔ میں نے عوامی رکشہ یونین کے سربراہ مجید غوری سے پوچھا تو انہوں نے مجھے کچھ رکشہ ڈرائیور وں کے ایس ایم ایس فارورڈ کر دئیے۔ پولیس نے لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کے لئے رکشوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی تھی اور اس کارروائی میں منطق یہ تھی کہ اگر اس قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب رہے گی تو شہری اپنی موومنٹ کو نہیں روکیں گے۔ ویسے بھی اگر تمام تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر بند کر دئیے جائیں تو عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت دس فیصد بھی نہیں رہ جاتی۔ میں نے وہ ایس ایم ایس پڑھے جن میں بتایا جا رہا تھا کہ ان کے گھروں میں کل کے لئے بھی آٹا نہیں ہے۔
یہ گھروں میں آٹا کیوں نہیں ہوتا، یہ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جو مہینے کے لاکھوں کماتے ہوں، فیصلہ سازہوں، بااختیار ہوں۔ پہلی بات، یہ لوگ اپنے مہینے بھر کا سودا سلف خود نہیں خریدتے بلکہ ان کے ملازم خرید کے لاتے ہیں اور اگر کسی کو بیگم کے ساتھ جا کے خود خریداری کا شوق بھی ہو توسامان کی دو، تین ٹرالیاں بھرنے کے بعد صرف تین، چار لاکھ لمٹ والے کریڈٹ کارڈ سے چالیس، پچاس ہزار کے بل پر دستخط ہی کرتے ہیں، وہ چیک نہیں کرتے کہ آٹے، گھی، چینی اور دیگر ضروریات کے نرخ کیا ہیں مگر دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو دن بھر رکشہ چلانے کے بعد جب گھر جاتا ہے تو وہ اسی قابل ہوتا ہے کہ ستر، اسی روپے کی سبزی کے ساتھ چالیس روپے کا گھی، بیس روپے کی چینی، پندرہ روپے کا گرم مصالحہ اور دس روپے کا نمک، مرچ خرید لے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے دو کلو گھی اکٹھا خریدنا بھی عیاشی ہوتا ہے۔ میں اپنے رکشہ ڈرائیوروں، الیکٹریشنوں، پلمبروں، مزدوروں مستریوں کی بات کر رہا تھا کہ لاری اڈے سے میاں خان کا فون آگیا، وہ ٹرانسپورٹ ورکرز یونین کے عہدیدار ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ ان کے ساتھ بسوں، ویگنوں پر کام کرنے والے لاکھوں ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں، کلینروں اور لوڈروں وغیرہ کی بات بھی کریں کہ وہ بھی گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور اب اگر وزیراعلیٰ پنجاب کوئی مدد کا پلان بناتے ہیں تو ان لوگوں کے نام بھی اپنی فہرست میں شامل کر لیں۔
ہم نے کرونا کے خوف کے کاروبار میں بہت گھاٹا کما لیا ہے۔ میں نے بلاول بھٹو زرداری کا بیان دیکھا وہ ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن کی بانسری بجا رہے ہیں، وہ درست کہہ رہے ہیں کہ بلاول ہاوس کے اندر سے ایسی ہی آواز آ سکتی ہے کہ وہاں آٹے چینی اور گھی کا کوئی بحران نہیں ہو سکتا مگر میری نظر میں اب عمران خان، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کو کرونا کی اس دیوار اور اس غبار سے آگے دیکھنا ہو گا۔ آپ نے لاک ڈاؤن کر کے دیکھ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ سو گھنٹوں سے بھی پہلے بہت ساری پابندیاں واپس لینا پڑیں کیونکہ ہم لاک ڈاؤن کی یہ عیاشی افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ میں اب کرونا کی دیوار اوراس کے غبار سے آگے دیکھنے کی گزارش کر رہا ہوں کہ ہمیں فوری طور ایسے ورکنگ گروپس اور ٹاسک فورسز بنانا ہوں گی، ہمیں کچھ ایسی آل پارٹیز کانفرنسز کرنا ہو ں گی جس میں ملک میں چیف ایگزیکٹو مقرر کئے گئے شخص کو پابند کیا جائے کہ وہ تجاویز آن لائن بیٹھ کے سنے اور ہمیں جاننا ہو گا کہ ہم کرونا کے بعد آنے والے اقتصادی بحران سے کیسے نکل سکتے ہیں، وہ بحران جس نے ہمارے دروازے پر دستک دینا شروع کر دی ہے۔ جس کے بارے ہمارے سرکاری پلاننگ کمیشن کے ایک ذیلی تحقیقی ادارے نے بتایا ہے کہ لاک ڈاون کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ تیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
طے یہ کرنا ہے کہ ہم اپنی اکانومی کے لئے اس مہلک او رجان لیوادور کے بعد اپنے کاروباردوبارہ کیسے شروع کرسکتے ہیں، ہماری صنعتوں کے اربوں ڈالرز کے جو آرڈرز منسوخ ہوئے اور اس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف ٹیکسٹائیل سیکٹر کے ساڑھے سات لاکھ دیہاڑی داروں کو نوکری سے جواب مل گیا ہم ان صنعتوں کے پہئے کیسے چلا سکتے ہیں۔ وہ کیا طریقہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی محصولات میں کم از کم ٹارگٹ ضرور حاصل کریں تاکہ ریاست کے پاس اتنے پیسے ہوں کہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ اداروں کو چلاسکے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ شرح سود فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لائی جائے تاکہ عام کاروباری آدمی قرض لے اور اپنی فیکٹری چلانا شروع کر دے مگر یہ تو صرف ایک تجویز ہے، ہمیں تو اس پر ایک ہمہ جہتی پلان چاہئے یعنی فوری طور تین ماہ میں نتائج لینے کے لئے کیا ہو اور ایک برس سے پانچ برسوں میں کیا اقدامات ہوں۔ آپ کرونا کے دریا کو عبور ضرور کریں مگر یہ دریا آپ کو ایک سمندر میں پھینک رہا ہے، میری درخواست اس سمندر میں جان بچانے کے لئے کچھ ہاتھ پاؤں مارنے کی ہے۔