اگلے روز "چپ اپوزیشنی جماعتوں" نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی نے صرف وزیراعظم عمران خان کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی، اُن میں سے ایک رکن پنجاب اسمبلی نشاط ڈاہا نے بتایا "اُنہوں نے یہ ملاقات اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کی ہے" ....مجھے اُن کے اِس موقف پر بڑی حیرت ہوئی، اگر واقعی حلقے کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے ملاقات کرنی ہوتی تو وزیراعلیٰ پنجاب کے بجائے وہ چیف سیکرٹری پنجاب سے کرتے، اِس کا اُنہیں کوئی فائدہ بھی ہوتا، ممکن ہے چیف سیکرٹری میجر ریٹائرڈ اعظم سلمان نے اُنہیں وقت ہی نہ دیا ہو جس پر مجبوراً اُنہیں وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنی پڑ گئی ہو، نون لیگ کے رُکن اسمبلی نشاط ڈاہانے اِس ملاقات کا ایک مقصد یہ بتایا "وہ وزیراعلیٰ پنجاب سے ترقیاتی فنڈ حاصل کرنے کے لیے ملے ہیں ".... یہ ترقیاتی فنڈز صرف حکومتی اراکین اسمبلی کو ہی ملتے ہیں، حیران کن بات یہ ہے ملک میں ترقی ہو نہیں رہی، ترقیاتی فنڈز اللہ جانے کہاں استعمال ہورہے ہیں؟ ۔ نشاط ڈاہا نے یہ تو بتادیا وہ ترقیاتی فنڈز کے حصول کے لیے وزیراعلیٰ سے ملے، یہ نہیں بتایا اُن کی اِس ملاقات کے صلے میں وزیراعلیٰ نے ترقیاتی فنڈز جاری کردیئے یا "لارالپا" لگاکر اُنہیں واپس بھجوادیا؟ زیادہ امکان یہی ہے "لارالپا" لگاکر واپس بھجوادیا گیا ہوگا، کیونکہ ایک آدھی ملاقات میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کردینا شاید ممکن نہیں، البتہ ایک آدھی ملاقات میں دوچار پٹواریوں، دوچار تھانیداروں کے تبادلے ضرور کروائے جاسکتے ہیں، یہ بھی اب اتنا آسان نہیں رہا کیونکہ وزیراعظم نے تقریباً سارے اختیارات بیوروکریسی کو سونپ دیئے ہیں البتہ بیوروکریسی کو ہدایت کی گئی ہے وہ ارکان اسمبلی کو صرف عزت ضرور دیں، سو ہمارے اکثر ارکان اسمبلی ان دنوں کسی افسر سے ملنے جائیں وہ اُنہیں چائے پلاتا ہے، کچھ افسران اُنہیں دفتر سے باہرتک چھوڑنے آتے ہیں مگر اپنے جائز ناجائز کاموں کے لیے وہ جتنی "چٹیں" افسروں کو دے کر آتے ہیں اُن کے جانے کے بعدوہ ساری کی ساری ڈسٹ بن میں پھینک دی جاتی ہیں، سُنا ہے اگلے روز ایک رُکن پنجاب اسمبلی اپنے ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے ملنے گئے، ڈپٹی کمشنر نے اُنہیں دیکھتے ہی چپڑاسی سے کہا "صاحب کے لیے فوراً گرما گرم کافی لے کر آو، پھر فون پر اپنے پی اے سے کہا، "اب کچھ دیرکے لیے فون نہیں ملانا، میرے پاس ایم پی اے صاحب بیٹھے ہوئے ہیں"، ....ایم پی اے نے عرض کیا "سر آپ ہربار میری خالی عزت کرکے مجھے واپس بھیج دیتے ہیں، اِس بار میں نے عزت نہیں کام کروانے ہیں " ....
جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے والے اپوزیشن کے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی کا تعلق ہے میری معلومات کے مطابق وہ پہلے بھی وزیراعلیٰ سے ملتے رہتے ہیں، اِس سے قبل گوجرانوالہ کے ایک رکن اسمبلی کی قیادت میں نون لیگ کے کچھ اراکین اسمبلی وزیراعظم عمران خان سے بھی مل چکے ہیں، میرا خیال تھا اِن ارکان اسمبلی کے خلاف نون لیگ شاید کوئی ایکشن لے جس کے نتیجے میں ممکن ہے اُنہیں پارٹی سے فارغ کردیا جائے، نون لیگ نے ان کے خلاف کوئی ایکشن شاید اِس لیے نہیں لیا کہ اِس کے نتیجے میں پارٹی کہیں خود فارغ نہ ہوجائے، جوکہ شریف برادران کے غیرضروری طورپر برطانیہ میں قیام اور ان کی کچھ کمزور و "ڈیلی ڈھالی" پالیسیوں کے نتیجے میں پہلے ہی کافی حدتک ہو چکی ہے، ....وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرنے والے نون لیگی رکن پنجاب اسمبلی نے بڑے دھڑلے سے کہا "پارٹی اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتی" .... اُنہوں نے شاید ٹھیک کہا ....کیونکہ نون لیگ کے سربراہان کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے "یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں لوگوں کے ہتھی پڑتے ہیں اور اقتدار میں نہیں ہوتے تو لوگوں کے پیری (پاوں) پڑتے ہیں " ....سو ممکن ہے حال ہی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے شریف برادران اپنی جانب سے خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی یا اپنی نئی سیاسی دریافت عطا اللہ تارڑ کو ان اراکین اسمبلی کے پاس بھجوائیں جو اُن کے پاوں چُھوکر اُن سے گزارش کریں "حضوراب وزیر اعلیٰ یا وزیراعظم سے مزید ملاقاتیں نہ کیجئے گا اس سے کہیں ہمارے مزید اراکین اسمبلی کے "چاکے" نہ کھل جائیں جبکہ " کھاتے" کچھ بے چاروں کے پہلے ہی کُھلے ہوئے ہیں، .... یہ بھی ممکن ہے نون لیگ یا شریف برادران نے اپنے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی کو خود ہی وزیراعلیٰ بزدار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا ہو"آپ کو جب بھی اپنی کرسی خطرے میں دکھائی دے، آپ فوراً ہم سے رابطہ کریں، ہم آپ کی پوری مدد کریں گے، کیونکہ آپ کی مسلسل نااہلیوں اور نکمے پن کا سب سے زیادہ فائدہ ہمیں ہی پہنچ رہا ہے، ....سچ پوچھیں مجھے تو کبھی کبھی شک گزرتا ہے ہمارے محترم وزیراعظم خان صاحب کم ازکم وزیراعلیٰ پنجاب کی حدتک اندرواندری نون لیگ یا شریف برادران سے ملے ہوئے ہیں، کیونکہ بزدار صاحب کو مسلسل وزیراعلیٰ کے عہدے پر قائم رکھنے کی ضِدکا سب سے زیادہ فائدہ اگلے الیکشن میں نون لیگ خصوصاً شہباز شریف کو ہی ہوگا....
ویسے شکر ہے وزیراعظم خان صاحب نے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہ دینے کے حوالے سے بھی "یوٹرن" لے لیا ورنہ ارکان اسمبلی کے لوٹا بننے کی روایت کمزور پڑ جانی تھی، البتہ نون سے بظاہر ناراض رُکن اسمبلی نشاط ڈاہا کی یہ ادا مجھے بڑی پسند آئی اُنہوں نے کُھل کر اپنے لوٹا ہونے کا اعتراف کرلیا، اُن کے نزدیک یہ کوئی جُرم، گناہ یا غلطی نہیں ہے، ایک ٹی وی ٹاک شو میں اُنہوں نے ماروی سرمد سٹائل میں بالکل درست فرمایا "ہماری سیاست میں کون لوٹا نہیں ہے؟ "۔ اِس ضمن میں دوچار اہم سیاستدانوں کے اُنہوں نے نام بھی لیے، اِس حوالے سے کچھ صحافیوں کوبھی وہ رگڑ گئے، اُن کے اِس موقف کے بعد کم ازکم میں اُن پر کُھل کر تنقید کرنے کے قابل نہیں رہا کہ "اپنے مفادات کے لیے پارٹی تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی یا سیاستدانوں کو لوٹا کہا جاتا ہے، تو اپنے مفادات کے لیے اخبارات یا چینل بدلنے والے کون سے فرشتے ہوتے ہیں؟ ۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی " ....اصل میں تقریباً سارا معاشرہ ہی اِس حدتک بے شرم ہوچکا ہے اب کسی کو اپنے کسی جرم، گناہ یا غلطی پر شرمندگی ہونا تو دور کی بات ہے اِس کا احساس تک نہیں ہوتا، بلکہ فخر ہوتا ہے، ....جیسے ہمارے محترم وزیراعظم خان صاحب بڑے فخر سے بتاتے ہیں اُن کے نزدیک یوٹرن لینا سیاست کی اہم ضرورت ہے، حالانکہ وزیراعظم بننے سے پہلے اُن کی ساری جدوجہد اِسی گندی سیاست کے خلاف دکھائی دیتی تھی، ....ممکن ہے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والے کچھ اپوزیشنی ارکان پنجاب اسمبلی نے سوچا ہو ہماری جماعتوں کے سربراہان اس ملک کے "اصل طاقتوروں " سے ظاہری وخفیہ ملاقاتیں کرکے بڑے بڑے مفادات اُٹھانے یا ڈیل وغیرہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے وزیراعلیٰ یا وزیراعظم سے ملاقات کیوں نہیں کرسکتے؟ ۔ سو بے شرمی کے اِس حمام میں ہم سب ننگے ہیں، ان حالات میں لوٹوں پر تنقید کرنا نہیں بنتا، بلکہ یہ کہنا بنتا ہے " لوٹوں کو عزت دو " ....صرف عزت نہیں فنڈز اور عہدے وغیرہ بھی دو ....