Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Tausif Ahmad Khan/
  3. Aqeday Aur Mazhab Ki Azadi

Aqeday Aur Mazhab Ki Azadi

مطلق العنان ریاستوں کی تاریخ انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ ہے۔ ان ریاستوں میں رعایا کوکوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ رعایا اپنے بادشاہ کے عقیدہ کو اپنانے کی پابند تھی، جو فرد یا گروہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا بادشاہ وقت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اس فرد یا گروہ سے زندگی کا حق چھین لے۔

یورپ میں جب نشاۃ ثانیہ کے دورکا آغاز ہوا تو عیسائی ریاستوں میں شہریوں کوکوئی حقوق حاصل نہیں تھے، جو لوگ عیسائی عقیدہ سے انحراف کرتے تھے ان کی زندگی درگور ہوجاتی۔ عیسائی ریاست چرچ کے نظریات کی امین ہوتی تھی، یوں چرچ کے رجعت پسند نظریات نے معاشرہ کو منجمد کیا ہوا تھا مگر صنعتی انقلاب کے ساتھ معاشرے میں تبدیلی کا عمل تیز ہوا۔ تعلیم عام ہونے، نئے شہروں کے بسنے اور بڑے پیمانہ پر صنعتی ترقی سے متوسط طبقہ وجود میں آیا۔

کسانوں نے آبائی پیشہ سے انحراف کیا اور وہ کارخانوں میں مزدور بن گئے، یوں اس وقت کے دانشوروں نے جمہوریت کے تصورکا پرچارکرنا شروع کیا۔ شہریوں میں یہ شعور ابھرنے لگا کہ حکمرانوں کو منتخب کرنے کا حق لوگوں کو حاصل ہونا چاہیے۔ برطانیہ میں بادشاہ اور چرچ کے خلاف مزاحمتی تحریک منظم ہوئی اور میگناکارٹا معاہدہ کے ذریعہ جدید جمہوری ریاست کے تصور نے عملی شکل اختیار کر لی۔

اب رعایا کے بجائے عوام کی اصطلاح رائج ہوئی اور ریاست پر بادشاہ یا کسی مذہبی، لسانی یا نسلی گروہ کے بجائے عوام کی ریاست میں بالادستی کا حل تلاش کیا گیا اور ایک ایسی جدید ریاست وجود میں آئی جس میں عوام کو حکمرانوں کو منتخب کرنے اور ووٹ کے ذریعے ان کے احتساب کا حق حاصل ہوا۔

فلسفیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ جدید جمہوری ریاست میں مذہب، نسل یا جنس کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز نہیں ہو گا، یوں ہر فرد کو اپنے عقیدے کا حق اور اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے تصورکو حقیقی شکل دی گئی۔ سوشل ویلفیئر اسٹیٹ میں ہر فرد کو نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ملی بلکہ ریاست نے اقلیتی شہریوں کے مذاہب کے تحفظ اور اس کی ترویج کی ذمے داری لے لی۔

برطانیہ، ہالینڈ اور اسکینڈے نیوین ممالک میں مسلمانوں نے اپنی مساجد قائم کرنا شروع کیں۔ ان ممالک نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتی مذاہب کی تبلیغ کے لیے گرانٹ دینا شروع کی۔ بہت سے مذہبی اداروں کو جو یورپ میں تبلیغ کرتے تھے انھیں وہاں کی حکومت گرانٹ دینے لگی۔

ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کا اسلامک مشن، مولانا شاہ احمد نورانی کا ورلڈ اسلامک مشن، جماعت اسلامی U.K کا ورلڈ اسلامک مشن اور مولانا طاہر القادری کے منہاج القرآن کے ادارے یورپ، امریکا اور کینیڈا میں قائم ہوئے۔ یورپ میں چرچ کی انتظامیہ نے مزید لبرل پالیسی اختیار کی۔ یورپ اور امریکا کے جن شہروں میں مساجد نہیں بنی تھیں، چرچ انتظامیہ نے جمعہ اور تہواروں کے موقعے پر نماز کی ادائیگی کی اجازت دیدی۔ ان ممالک میں یہ سہولت تمام مذاہب کے لوگوں کو حاصل ہوئی۔

یہی وجہ ہے کہ اب یورپ، امریکا اور کینیڈا کے ہر شہر میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی مساجد کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ نائن الیون کی دہشتگردی کے بعد امریکا اور یورپی ممالک میں مذہبی انتہا پسندی کو تقویت ملی۔ امریکا کے سابق صدر بش جونیئر نے انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی، صدر ٹرمپ نے تو سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس زمانہ میں بعض عیسائی انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی مساجد پر حملے کیے۔

یہ حملے برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی اور فرانس وغیرہ میں بھی ہوئے مگر ان ممالک کی انتظامیہ نے انتہا پسند عناصرکی سرکوبی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی پولیس نے مذہبی انتہا پسند گروہوں کا خاتمہ کیا۔ نیوزی لینڈ میں گزشتہ سال ایک مذہبی انتہا پسند نے دو مساجد میں مسلمانوں پر اندھادھند گولیاں چلائیں، یوں کئی لوگ شہید ہوئے، مگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مسلمانوں کی مدد کے لیے میدان میں آئیں۔

انھوں نے تاریخی اعلان کیا کہ مذہبی جنونی کے سیاہ کارنامہ کی بناء پر لوگ اس کا نام بھی یاد نہیں رکھیں گے مگر یہ مناظر ٹی وی چینلز پر نظر آئے کہ مسلمان نماز ادا کر رہے ہیں اور غیر مسلمان ان کی حفاظت کے لیے پہرہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ نیوزی لینڈ کی عدالت نے مسلمانوں کے قتل عام پر مذہبی جنونی کو موت کی سزا دی۔ پڑوسی ملک بھارت میں 1947ء کے خون ریز فسادات کے بعد مذہبی جنونیت انتہا پر پہنچ گئی تھی۔

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا ہونا عام سی بات ہو گئی تھی مگر مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کا فلسفہ پیش کیا اور بھارتی یونین کا آئین ایک دلت بابا صاحب امریتکر کی قیادت میں تیار ہوا۔ پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے سیکیولر ریاست کے تصورکو یقینی بنانے کے لیے پالیسی تیار کی، یوں مسلمانوں کی بند ہونے والی مساجد کھل گئیں اور نئی مساجد بھی تعمیر ہوئیں۔

بھارتی حکومت نے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں کو حج کے لیے خصوصی رعایت کی پالیسی اختیارکی، یوں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حج آسان اور سستا ہو گیا۔ چند سال قبل تک حج کا فریضہ ادا کرنے والے بعض اکابرین کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کے حج انتظامات زیادہ بہتر نظر آتے تھے، مگر بھارتیہ جنتہ پارٹی نے ہندو توا کا فلسفہ اپنایا اور مذہبی جنونیت کو تقویت دی۔

90ء کی دہائی میں اڈوانی کی رتھ یاترہ نے مذہبی تضادات کو شدید تر کر دیا، بابری مسجد کی شہادت نے پنڈت جواہر لعل نہروکی سیکیولر پالیسیوں کو تار تار کر دیا۔ وزیر اعظم مودی ہندو ریاست کے نام کے نعرہ پر برسر اقتدار رہے۔ اسی بناء پر مسلمانوں سے گائے کا گوشت کھانے سے لے کر عبادت کرنے، اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ بھارت کمیونسٹ سیکیولر عناصر بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔

سوشل ایکٹیوسٹ ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا مقصد بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں واضح کیا تھا کہ " آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں، اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔"

پاکستان کے آئین میں جس پر مذہبی اور سیکیولر جماعتوں نے اتفاق کیا اس آئین میں تمام غیر مسلمان شہریوں کو اپنے عقیدہ پر مکمل عمل کرنے اور عبادت گاہیں بنانے کی آزادی دی گئی ہے۔ پاکستان نے انسانی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کیے۔ اس منشور کے آرٹیکل 18 میں درج ہے کہ ہر شخص کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے۔

اس حق میں مذہب اور عقیدے کو تبدیل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے اور یہ آزادی بھی، کہ کوئی شخص تنہا یا کچھ افراد مل کر اجتماعی طور پر، نجی حدود میں یا سر عام، تعلیم و تبلیغ، اعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے مذہب کا اظہار کریں۔ بعض وزراء اسی بناء پر اسلام آباد میں مندر کے قیام کا دفاع کر رہے ہیں۔ آج پھر ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم دنیا کو اپنے مذہب جو تمام انسانوں سے یکساں سلوک کا درس دیتا ہے کا چہرا دکھانا چاہتے ہیں یا؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran